کہا جب تم سے چارہ درد دل کا ہو نہیں سکتا
Appearance
کہا جب تم سے چارہ درد دل کا ہو نہیں سکتا
تو جھنجھلا کر کہا تیرا کلیجا ہو نہیں سکتا
وہ اپنی ضد کے پورے ہٹ کے پورے آن کے پورے
فقط اتنی کمی ہے قول پورا ہو نہیں سکتا
کہاں کی چارہ فرمائی عیادت تک نہیں کرتے
مسیحائی پہ مرتے ہیں اور اتنا ہو نہیں سکتا
سر طور ان کے جلوے نے پکارا خود نما ہو کر
کہ اپنے چاہنے والے سے پردا ہو نہیں سکتا
کہا جب ان سے میری زندگی تم ہو کہا ہنس کر
میں سمجھا اب تمہیں میرا بھروسا ہو نہیں سکتا
مرا گھر غیر کا گھر تو نہیں کیوں کر وہ کھل کھیلیں
نگاہیں اٹھ نہیں سکتیں اشارا ہو نہیں سکتا
شرفؔ اور رشکؔ کے کہنے سے کچھ تک بندیاں کر لیں
حسنؔ افکار میں ہم سے دو غزلا ہو نہیں سکتا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |