Jump to content

کہاں تلک کہوں ساقی کہ لا شراب تو دے

From Wikisource
کہاں تلک کہوں ساقی کہ لا شراب تو دے
by محمد ابراہیم ذوق
296592کہاں تلک کہوں ساقی کہ لا شراب تو دےمحمد ابراہیم ذوق

کہاں تلک کہوں ساقی کہ لا شراب تو دے
نہ دے شراب ڈبو کر کوئی کباب تو دے

بجھے گا سوز دل اے گریہ پل میں آب تو دے
دگر ہے آگ میں دنیا یوں ہی عذاب تو دے

گزرنے گر یہ مرے سر سے اتنا آب تو دے
کہ سر پہ چرخ بھی دکھلائی جوں حباب تو دے

ہزاروں تشنہ جگر کس سے ہوئیں گے سیراب
خدا کے واسطے تیغ ستم کو آب تو دے

تمہارے مطلع ابرو پہ یہ کہے ہے خال
کہ ایسا نقطہ کوئی وقت انتخاب تو دے

در قبول ہے درباں نہ بند کر در یار
دعائے خیر مری ہونے مستجاب تو دے

کھلے ہے ناز سے گلشن میں غنچۂ نرگس
ذرا دکھا تو اسے چشم نیم خواب تو دے

بلا سے آپ نہ آئیں پہ آدمی ان کا
تسلی آ کے مجھے وقت اضطراب تو دے

ہوا بگولے میں ہے کشتگان زلف کی خاک
کہ بعد مرگ بھی معلوم پیچ و تاب تو دے

بلا سے کم نہ ہو گریہ سے میرا سوز جگر
بجھا پر ان کی ذرا آتش عتاب تو دے

شہید کیجیو قاتل ابھی نہ کر جلدی
ٹھہرنے مجھ کو تہ تیغ اضطراب تو دے

شکار بستۂ فتراک کو ترے مقدور
ہوا نہ یہ بھی کہ بوسہ سر رکاب تو دے

دل برشتہ کو میرے نہ چھوڑو مے خوارو
جو لذت اس میں ہے ایسا مزا کباب تو دے

نشے میں ہوش کسے جو گنے حساب کرے
جو تجھ کو دینا ہیں بوسے بلا حساب تو دے

جواب نامہ نہیں گر تو رکھ دو نامۂ یار
جو پوچھیں قبر میں عاشق سے کچھ جواب تو دے

رکھے ہے حوصلہ دریا کب اہل ہمت کا
نہیں یہ اتنا کہ بھر کاسۂ حباب تو دے

کہاں بجھی ہے تہ خاک میری آتش دل
کہو ہوا سے ہلا دامن سحاب تو دے

خنک دلوں کی اگر آہ سرد دوزخ میں
پڑے تو واقعی اک بار آگ داب تو دے

کرے گا قتل وہ اے ذوقؔ تجھ کو سرمے سے
نگہ کی تیغ کو ہونے سیاہ تاب تو دے

پہنچ رہوں گا سر منزل فنا اے ذوقؔ
مثال نقش قدم کرنے پا تراب تو دے


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.