کھوویں ہیں نیند میری مصیبت بیانیاں
Appearance
کھوویں ہیں نیند میری مصیبت بیانیاں
تم بھی تو ایک رات سنو یہ کہانیاں
کیا آگ دے کے طور کو کی ترک سرکشی
اس شعلے کی وہی ہیں شرارت کی بانیاں
صحبت رکھا کیا وہ سفیہ و ضلال سے
دل ہی میں خوں ہوا کیں مری نکتہ دانیاں
ہم سے تو کینے ہی کی ادائیں چلی گئیں
بے لطفیاں یہی یہی نا مہربانیاں
تلوار کے تلے ہی گیا عہد انبساط
مر مر کے ہم نے کاٹی ہیں اپنی جوانیاں
گالی سوائے مجھ سے سخن مت کیا کرو
اچھی لگے ہیں مجھ کو تری بد زبانیاں
غیروں ہی کے سخن کی طرف گوش یار تھے
اس حرف ناشنو نے ہماری نہ مانیاں
یہ بے قراریاں نہ کبھو ان نے دیکھیاں
جاں کاہیاں ہماری بہت سہل جانیاں
مارا مجھے بھی سان کے غیروں میں ان نے میرؔ
کیا خاک میں ملائیں مری جاں فشانیاں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |