Jump to content

کچھ نہیں ہے تو عداوت ہی سہی

From Wikisource
کچھ نہیں ہے تو عداوت ہی سہی (1942)
by سعادت حسن منٹو
319939کچھ نہیں ہے تو عداوت ہی سہی1942سعادت حسن منٹو

قطع کیجئے نہ تعلق ہم سے۔۔۔ کچھ نہیں ہے تو عداوت ہی سہی۔۔۔ قطع تعلق بھی ہے اور نہیں بھی ہے۔ عداوت بھی ہے اور نہیں بھی ہے۔ عجیب و غریب مضمون ہے۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ مرد اور عورت کا باہمی رشتہ کیا ہے۔ عورت کی طرف مرد کا میلان سمجھ میں آ جاتا ہے لیکن مرد کی طرف عورت کا میلان جو ہے بھی اور نہیں بھی ہے، سمجھ سے کچھ اونچا ہی رہتا ہے، یعنی عورت مرد سے نفرت بھی کرتی ہے اور انجام کار اس سے محبت بھی کرتی ہے۔ اس کی بدعنوانیوں کی مذمت کرتی ہے، مگر اس کے باوجود ان بدعنوانیوں کا شکار ہو جاتی ہے۔

شادی ہی کو لیجئے جوکہ بہت عام چیز ہے۔ چاہیئے تو یہ کہ لڑکی اپنی شادی پر خوش ہو، لیکن ہونے والی دلہنوں کو کس نے گٹھری بنتے نہیں دیکھا۔ رونی آواز میں ان کے منہ سے ایسی باتیں کس نے نہیں سنیں۔ میری جوتی کو کیا غرض پڑی تھی جو میں چق میں سے ان کو جھانک کر دیکھتی۔۔۔ میں تو انہیں ہاتھ تک نہ لگانے دوں۔۔۔ مفتوں کی ہاتھ لگ گئی ہوں جبھی تو اپنے دوستوں میں میری یوں ہتک کی گئی ہے۔۔۔ آگ لگے میری جان کو۔۔۔ نہیں بھئی میں تو عمر بھر کنواری رہوں گی۔۔۔ امی جان نے تو اپنے سر کی بلا ٹالی ہے۔۔۔ جانے کون ہیں کون نہیں ہیں، گھر لے جاتے ہی مجھے قتل کر دیں۔۔۔

اتنا پڑھایا لکھایا تھا کیا اسی دن کیلئے کہ مجھے ایک نامحرم آدمی کے حوالے کر دیا جائے۔۔۔ میں زہر کھا لوں گی۔۔۔ لڑکیاں پرایا دھن ہوتا ہے، بس یہ کہہ کر ٹال دیا جاتا ہے۔۔۔ چار روز سے میرے منہ میں ایک کھیل تک نہیں گئی۔ کسی کو ترس نہیں آتا۔۔۔ نہیں میں یوں نہیں بیٹھوں گی۔۔۔ مجھ سے یہ کیوں کہا جا رہا ہے کہ نہاؤ، سجو، بنو۔۔۔ یہ سجا بنا کر مجھے کس کے حوالے کیا جا رہا ہے۔۔۔ میری بھتی کھایئے، مجھے ہائے ہائے کر کے پیٹیے اگر میری شادی کیجئے۔۔۔

آنکھوں میں سے آنسو بہتے ہیں۔ کئی کئی دن واقعی کھانا نہیں کھایا جاتا، لیکن اس کے ساتھ ہی ساتھ ہاتھوں پر مہندی لگوائی جاتی ہے، ڈھولک بجانے والی سہیلیوں کے ساتھ بیٹھا جاتا ہے۔ گپیں اڑائی جاتی ہیں اور تخلیے میں اپنی سب سے عزیز سہیلی کے ساتھ کپکپی پیدا کرنے والی باتیں کی جاتی ہیں۔ آزمودہ نسخے نوٹ کئے جاتے ہیں۔ آنے والے حادثات کی تفصیلات ادھر ادھر سے اکٹھی کی جاتی ہیں اور۔۔۔ اور۔۔۔ کیا کچھ نہیں کیا جاتا۔

مہندی لگے ہاتھ، مقیشی بال۔۔۔ لس لس کرتے بھاری جوڑے، چمکیلے زیور، چہرے کی اڑی اڑی رنگت، ریشمی گھونگھٹ، دل میں دھڑکنیں۔۔۔ شہنائیاں۔۔۔ باجے گاجے۔ دھوم دھڑکے۔۔۔ اس کے بعد حجلہ عروسی۔۔۔ خاموشیوں کے قفل جو کبھی کھلیں ہی نہیں۔ ادھر یکسر انکار، ادھر کبھی التجائیں، منتیں، خوشامدیں اور کبھی دھمکیاں، ’’لو اب خدا کیلئے مان بھی جاؤ۔۔۔ دیکھو ہم تم سے کبھی نہ بولیں گے۔۔۔ کچھ منہ سے تو بولو۔۔۔ قسم لے لے جو تمہیں پھر گدگداؤں، ایک فقط تم ہاں کر دو۔۔۔ خدا کی قسم میں تمہیں کچھ نہیں کہوں گا۔۔۔ لو میں ایک طرف ہٹ جاتا ہوں۔۔۔ تم اب بھی نہیں مانتیں۔ آخر یہ سلسلہ کب تک جاری رہے گا۔ بھئی میں تو تھک گیا ہوں۔ آخر ہمیں تھوڑی دیر آرام بھی تو کرنا ہے۔۔۔‘‘

کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے۔۔۔ خاموشی تکلم میں تبدیل ہوئی، ’’نہیں آپ اپنے دوستوں کو ضرور ساری بات بتا دیں گے۔۔۔ مجھے کہیں کا نہ رکھیں گے۔۔۔ آپ کو خدا کی قسم جو آپ نے کچھ کہا۔۔۔ ہائے، میں کیسی بے حیا ہوں۔۔۔ آپ دل میں کیا کہتے ہوں گے۔ چٹاخ چٹاخ باتیں کر رہی ہے۔۔۔ خدا کرے مجھے موت آ جائے۔۔۔ ضرور دروازے کے باہر کوئی کھڑا ہے۔۔۔ اب میں کیا کروں۔۔۔ زبردستی نہ کیجئے۔۔۔ میری کلائی ٹوٹ جائے گی۔ آپ کتنے بے رحم ہیں۔۔۔ دیکھئے میں ہاتھ جوڑتی ہوں۔ خدا کے واسطے مجھے چھوڑ دیجیئے۔۔۔ میں مر جاؤں گی۔۔۔ مجھے بخش دیجئے۔ صرف آج کے روز بخش دیجئے، پھر آپ جو کہیں گے میں مان لوں گی۔۔۔‘‘

ایسی باتیں کون مانتا ہے۔ آخر وہی ہوتا ہے جو منظورِ خدا ہوتا ہے۔۔۔ ہر جوان لڑکی سے جلد یا بدیر یہی سانحہ پیش آتا ہے۔ مردوں کی بدعنوانیوں کے متعلق ساری شکایتیں دھری کی دھری رہ جاتی ہیں اور ایک ہی رات میں وہ تمام منزلیں طے کر لی جاتی ہیں جن کے متعلق سوچنا بھی کبھی گناہ سمجھا جاتا تھا۔ شادی کے دوسرے روز ہی وہ مرد جس کو برا بھلا کہا جاتا تھا، عزیز ترین رفیق بن جاتا ہے۔

’’انہوں نے کہا تھا کہ تم سیدھی مانگ نکالا کرو۔۔۔ صبح سے کہیں باہر گئے ہیں، ابھی تک لوٹے نہیں۔ اللہ خیر کرے۔۔۔ یہ سلیپنگ سوٹ انہوں نے مجھے دیا ہے۔ کہتے تھے رات کو سوتے وقت دوسرے کپڑوں کی بجائے اب اسے ہی پہنا کرو۔۔۔ نہیں بھئی میں پان نہیں کھاؤں گی۔ انہوں نے منع کیا تھا۔۔۔ ان کو آج تک کبھی وقت پر چائے نہیں ملی تھی۔ جب میں نے یہ سنا تو خدا کی قسم میرے دل کو بہت دکھ ہوا۔۔۔ صبح اٹھ کر میں نے پہلا کام یہی کیا کہ ان کے لئے چائے بنوائی۔۔۔‘‘

میں سمجھتا ہوں کہ مرد اور عورت کے درمیان صرف ایک رات حائل ہے۔ اگر یہ کالی چیز حائل نہ ہوتی تو خوباں سے چھیڑ چھاڑ کبھی پردۂ ظہور پر نہ آتی۔ بہت ممکن ہے کہ مرد چھیڑتے وقت اس بات کو بھول جاتا ہو مگر عورت جب چھیڑتی ہے یا جب کسی عورت کو چھیڑا جاتا ہے تو یہ رات جھٹ اس کی نظروں کے سامنے آ جاتی ہے۔ سارا فساد اسی رات کا ہے، جس نے انسانی زندگی کو کئی خوبصورت روشنیوں سے متعارف کرایا ہے۔ چھیڑ چھاڑ انہی روشنیوں میں سے ایک روشنی ہے، جسے پھلجھڑی کہنا بجا ہوگا۔ میں اس کے متعلق پچھلے مضمون میں نوجوان مردوں کے تاثرات بیان کر چکا ہوں۔ اس مضمون میں نوجوان لڑکیوں کا رد عمل بیان کیا جائے گا۔ یہ رد عمل معلوم کرنے کے لئے میں نے ذیل کا سوالیہ تیار کیا،

۱۔ مردوں کی چھیڑ چھاڑ کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے۔۔۔ آپ اسے پسند کرتی ہیں یا نا پسند؟ پسندیدگی اور ناپسندیدگی کی وجہ بیان کیجئے۔

۲۔ جب آپ کو چھیڑا جاتا ہے تو آپ کیا کرتی ہیں؟

۳۔ آپ کو کیوں چھیڑا جاتا ہے؟

۴۔ کیا آپ مردوں کو نہیں چھیڑتیں؟

۵۔ کوئی ایسا واقعہ بیان کیجئے جو اس چھیڑ چھاڑ سے متعلق ہو اور جس کا تاثر ابھی تک آپ کے حافظے پر قائم ہو۔

ظاہر ہے کہ عورتوں اور لڑکیوں سے براہ راست یہ سوال کرنے اور ان کا جواب حاصل کرنے میں مجھے بہت دقت پیش آئی ہوگی۔ خصوصاً کنواری لڑکیوں سے تو میں نے ڈر ڈر کے یہ سوال کئے۔ بہرحال کسی نہ کسی طرح ان دقتوں اورمشکلوں کے باوجود یہ مضمون تیار ہو ہی گیا۔

عورتوں اور لڑکیوں کے تاثرات اور ان کا رد عمل بیان کرنے سے پہلے میں یہ بتا دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ ایک جگہ تمام لڑکیوں اور عورتوں کو بلا کر میں نے یہ معلومات حاصل نہیں کیں۔ مجھے تین بڑے شہروں میں رہنے کا اتفاق ہوا ہے۔ لاہور، بمبئی اور دہلی۔ ان تین شہروں میں مختلف اوقات میں، میں ایک ایک دو دو عورتوں سے ملا۔ ان سے دوستانہ بات چیت کی اور اپنے مطلب کی باتیں معلوم کر لیں۔ کل بارہ عورتوں سے میرا اس قسم کا انٹرویو ہوا۔ جن میں سے دو بیاہی ہوئی تھیں۔ باقی سب کنواری تھیں۔ ان کی عمر کا اوسط سولہ سال سے زیادہ نہیں تھا۔

نو لڑکیوں نے جن میں دو بیاہی ہوئی بھی شامل تھیں، پہلے سوال کا بالکل ایک جیسا جواب دیا، مردوں کی چھیڑ چھاڑ کے متعلق ہمارا خیال یہ ہے کہ ایسی فضول اور نازیبا حرکت کوئی اور ہو ہی نہیں سکتی۔ پرائی بہو بیٹیوں کو چھیڑنا کہاں کی شرافت ہے۔ یہ صریحاً شُہداپن ہے۔ اس قسم کی حرکت صرف وہی لوگ کرتے ہیں جو اخلاقِ حمیدہ سے عاری ہوتے ہیں۔ جن کی آنکھوں میں شرم کا پانی بھی نہیں ہوتا۔ ہم اس چھیڑ چھاڑ کو صرف ناپسند ہی نہیں کرتیں بلکہ انتہائی نفرت کی نگاہ سے دیکھتی ہیں۔ ا س لئے کہ ہماری آزادی میں یہ بے شمار رکاوٹیں پیدا کرنے کا موجب بنی ہوئی ہے۔ غضب خدا کا ہم ڈر کے مارے باہر سیر کو بھی تو نہیں جا سکتیں۔ باغ میں گھومنے کے لئے جایئے تو ہمیشہ اس بات کا کھٹکا رہتا ہے کہ کوئی مرد ہمارے پیچھے پیچھے چلنا شروع کر دے گا اور ایسی بھوکی نظروں سے دیکھے گا کہ سیر کا سارا لطف، سارا مزا کرکرا ہو جائے گا۔ کسی پھول کی طرف دیکھئے تو جھاڑی کے عقب سے کن سری آواز آئے گی۔ ’’انہیں منظور اپنے زخمیوں کو دیکھ آنا تھا۔ چلیں ہیں سیرِ گل کو دیکھنا شوخی بہانے کی۔‘‘

سیر گل گئی بھاڑ میں اور زخمی گئے چولہے میں۔ کہاں کی سیرِ گل، کہاں کی شوخی، یہ نگوڑے کچھ کرنے بھی دیں۔ یہ موئی چھیڑ چھاڑ ہے یا گندی موری کے چھینٹے۔ کوئی پکچر دیکھنے جاؤ تو سب کی گردنیں ہماری طرف مڑ جائیں گی۔ گھورے جا رہے ہیں۔ سب گھورے جا رہے ہیں۔ بات تک کرنے کی اجازت نہیں۔ اندھیرا ہوتا ہے تو اس بات کا دھڑکا رہتا ہے کہ اپنی ٹانگ کھجلانے کے بہانے ساتھ والے لالہ جی ہماری ٹانگ کھجلانا شروع کر دیں گے۔ پکچر ختم ہونے پر باہر نکلتے وقت یہ اندیشہ لاحق رہے گا کہ کوئی صاحب کندھا مار کر نکل جائیں گے اور انگریزی میں افسوس کا اظہار کر دیں گے۔۔۔ کوٹھے پر بال سکھانے کے لئے جاؤ تو کوئی ہمسایہ اپنے چڑھے ہوئے پتنگ کی ڈور ڈھیلی کر کے بالوں میں الجھا دے گا۔ غصّے میں آ کر ڈور پکڑ لو تو آواز آئے گی۔ ’’لے لیجئے جتنی درکار ہے۔‘‘ بھنا کر ڈور کھینچنا شروع کی تو انہوں نے چرخی ہاتھ میں لے لی۔ ’’کھینچتے جایئے جب تک آپ تھک نہ جائیں۔‘‘

کیا کریں کیا نہ کریں ہم تو بہت عاجز آ گئے ہیں۔۔۔ ایک دکھ ہو تو بتائیں۔۔۔ شاپنگ کے لئے جائیں تو اور مصیبتیں سر پر کھڑی ہوتی ہیں۔ دکاندار ہی آنکھیں سینک رہے ہیں اور اپنی حرص پوری کر رہے ہیں۔ کبھی کبھی کوئی فقرہ بھی چست کر دیتا ہے۔ ’’کشمیر کے سیب ادھر بھی دیکھتے جایئے۔۔۔ انڈر وئیرز کے نئے نئے ڈیزائن آئے ہیں۔ ملاحظہ فرماتے جایئے۔۔۔ ایک نظر ادھر بھی، بالکل نیا مال ہے۔۔۔‘‘ اب ان مردوں سے کوئی کیا کہے۔ جی تو اکثر یہی چاہتا ہے کہ اپنی چھتری ان ملعونوں کے حلق میں گھونس دیں یا ہینڈ بیگ منہ پر دے ماریں مگر بے کار کے فضیحتے سے ڈر لگتا ہے، ا س لئے مجبوراً خاموش رہنا پڑتا ہے۔۔۔ کوئی موٹر پاس سے گزرتی ہے تو اس کے اندر بیٹھے ہوئے تمام صاحبان گھورنا شروع کر دیتے ہیں۔ کوئی ان سے پوچھے کہ حضرت یہ آپ کو کیا خبط سمایا۔ آپ کی موٹر جا رہی ہے، ہم بھی جا رہے ہیں، اس نظربازی کا فائدہ؟

موٹر والوں کو چھوڑیئے، یہ کم بخت ڈلیا والے مزدور (جنہیں دہلی میں جھلی والے اور بمبئی میں پاٹیا والے کہتے ہیں) بھی ہمارا پیچھا نہیں چھوڑتے۔ ’’میم صاحب، لایئے یہ پارسل میں اٹھا لوں۔۔۔ یہ مرتبان مجھے دے دیجئے، میں اٹھا لیتا ہوں۔۔۔‘‘ ان سے کہا جاتا ہے، ’’نہیں بھائی، میں اتنی چھوٹی چیز کے لئے مزدور نہیں چاہتی۔‘‘ جواب ملتا ہے، ’’میم صاحبہ میں آپ سے پیسے تھوڑے ہی مانگتا ہوں۔‘‘ اب بتایئے ان الو کے پٹھوں کو کیا جواب دیا جائے۔ سو سو آفتوں میں ہر وقت جان پڑی رہتی ہے۔۔۔ کوئی ٹھکانا ہے اس عذاب کا۔ خدا کرے نہ رہیں ایسے لوگ اس دنیا کے تختے پر۔ ناک میں دم کر رکھا ہے نابکاروں نے۔۔۔ چھیڑ چھاڑ کو ناپسند کرنے کی وجہ اس کے سوا اور کیا ہو سکتی ہے کہ یہ ایک نہایت ہی لغو اور بیہودہ حرکت ہے کہ جس کا سر ہے نہ پیر، ہمیں آخر کیا سمجھ لیا گیا ہے۔

ان نو لڑکیوں میں سے ایک نے کہا۔ مجھے اس چھیڑ چھاڑ سے اتنی ہی نفرت ہے جتنی چوہوں سے بلکہ اس سے بھی کہیں زیادہ۔ ایک اور نے کہا، ’’میں ا س لئے یہ چھیڑ چھاڑ ناپسند کرتی ہوں کہ عورت اس کا جواب تھپڑ مارنے یا گالی دینے کے سوا کسی اور طریقے سے دے ہی نہیں سکتی۔ ظاہر ہے کہ یہ دونوں چیزیں ہم سے نہیں ہو سکتیں۔ اسی واسطے ہم اس سے نفرت کرتی ہیں۔ راہ چلتے چھیڑا جائے تو اور بھی مصیبت ہے۔ اب کیا بیچ بازار کے تو تو میں میں شروع کر دی جائے۔ اصل میں عورت شروع سے دبی ہوئی ہے۔ ا س لئے بیچاری کچھ بھی نہیں کر سکتی، ورنہ ایسے بدنیت مردوں کا علاج ہو سکتا ہے۔

باقی تین لڑکیوں میں سے دو نے اسی سوال کے جواب میں کہا۔ ہمیں یہ چھیڑ چھاڑ ناپسند نہیں مگر وہ چھیڑ چھاڑ یقیناً ناپسند ہے جو بالکل تہذیب سے گری ہوئی ہو۔ یعنی جس میں انتہا درجے کا بھونڈا پن ہو۔ آنکھیں مارنا، کندھے رگڑنا، سلام کرنا، دور سے اشارہ بازی کرنا، فحش مذاق کرنا، یہ سب ہمیں ناپسند ہے۔ ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ ایک آنکھ میچ لینے سے کیا ہوتا ہے۔ چھیڑنے کا یہ طریقہ بہت ہی بازاری اور عامیانہ ہے۔ اس کا مطلب اس کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے، ’’کیوں، تمہاری کیا صلاح ہے؟‘‘ یہ مذاق نہیں بلکہ ایک نہایت ہی ادنیٰ کاروباری سوال ہے۔ ایسا بھدا اشارہ ہے جو خوش ذوق آدمیوں کو ہر گز استعمال نہیں کرنا چاہیئے۔ اس میں بنیاپن ہے اور کندھے رگڑنا یا دھکے مارنا اکھاڑوں میں ہونا چاہیئے۔ چھیڑ چھاڑ کشتی گیری نہیں۔

اور بھئی کیا پتا ہے دھکے سے کوئی اوندھے منہ گر پڑے، کوئی جوڑ نکل جائے، کوئی ہڈی ٹوٹ جائے، ہنسی میں کھنسی ہو جائے اور جناب سلام کا تو کوئی مطلب ہی نہیں۔ یہ کیا ہے کہ بار بار ہاتھ جوڑے جا رہے ہیں۔ ماتھے کی طرف ہاتھ لے جایا جا رہا ہے۔ اس فعل میں قابلِ رحم بچپن ہے۔ فحش مذاق کے متعلق کچھ کہنا ہی فضول ہے۔ مذاق شائستہ ہونا چاہیئے، کوئی اس میں بات ہو نہ کہ صرف چھیڑنے کی خاطر چھیڑ دیا جائے۔ کوئی پتھر اٹھا کر سر پر مار دیا جائے۔ پسلیوں میں ٹھونکا دے دیا جائے۔۔۔ کوئی ذائقہ دار بات ہونی چا ہیئے، جس سے دل و دماغ کو فرحت حاصل ہو۔ شگفتگی سی پیدا ہو۔ آدمی ایک دو گھڑی کے لئے خوش ہو جائے۔ ایسی چھیڑ چھاڑ ہمیں پسند ہے اور خدا کرے کہ یہ ہمیشہ جاری رہے۔ اس سے بڑا لطف حاصل ہوتا ہے۔ جوانی کی داستان میں اس قسم کے چٹکلے ضرور ہونے چاہئیں۔ یہ نہ ہوں تو کہانی بالکل خشک اور بے مزہ ہوگی۔

ان دو لڑکیوں میں سے ایک نے یہ بھی کہا، ’’بدصورت اور کریہہ النظر مردوں کو تو چھیڑنے کا کوئی حق ہی نہیں، اگر وہ چھیڑنا ہی چاہتے ہیں تو ایسی عورتوں کو منتخب کیا کریں جو ان کا جوڑ ہوں یا بدصورتی میں ان سے کچھ زیادہ ہی نمبر لیتی ہوں۔ بدصورت مردوں کا خوش شکل عورتوں کو چھیڑنا میرے نزدیک ایک بہت بڑا جرم ہے۔ میں خوبصورت نہیں ہوں (یہ لڑکی خوبصورت تھی۔) لیکن وہ صدمہ جو خوش شکل عورتوں کو ایسے مردوں کی چھیڑ چھاڑ سے ہوتا ہے اچھی طرح سمجھ سکتی ہوں۔‘‘

بارہویں یعنی آخری لڑکی نے اس سوال کے جواب میں کہا، مردوں کی چھیڑ چھاڑ کے متعلق میرا خیال بہت اچھا ہے۔ مجھے یہ چیز پسند ہے۔ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ میں بہت شریر ہوں۔ میں چاہتی ہوں کہ مرد مجھے چھیڑیں تاکہ جواب میں ان کو میں بھی چھیڑ سکوں۔ وہ عورتیں جو سمجھتی ہیں کہ مردوں کو چھیڑ ہی نہیں سکتیں، بیوقوف ہیں۔ وہ سوچتی ہی نہیں کہ مردوں کو اتنی سہولتیں میسر نہیں جتنی کہ ہمیں ہیں۔ ہمارا جوابی حملہ انہیں بوکھلا سکتا ہے، ان کی سٹّی گُم کر سکتا ہے۔ انہیں لاجواب کر سکتا ہے اس لئے کہ ہم عورتیں ہیں۔ ان کو اس کا ہر حالت میں لحاظ کرنا پڑتا ہے۔ مرد عورت کو کمزور، کم زبان اور کم عقل سمجھتا ہے۔ اس کے اس نظریئے سے ہمیں فائدہ اٹھانا چاہیئے۔ عورت کمزور سہی لیکن وہ کم زبان اور کم عقل تو نہیں۔ اپنی عقل اور اپنی زبان سے کیوں نہ فائدہ اٹھایا جائے۔

میں سمجھتی ہوں کہ مردوں کے مقابلے میں ہم عورتیں کہیں زیادہ ذہین اور طباع ہیں۔ ہم اگر چاہیں تو مردوں کی زبان بند کر سکتی ہیں۔ ان کی ساری چالاکی ختم کر سکتی ہیں۔۔۔ عورت کے سامنے مرد حیثیت ہی کیا رکھتا ہے۔ عورت سے دور مرد سب کچھ ہے، پر جب وہ عورت کے سامنے آتا ہے تو کشکول اٹھانے والا بھکاری بن جاتا ہے کیونکہ عورت سے وہ سوائے خیرات کے اور مانگتا ہی کیا ہے۔ مرد کے لئےعورت دلچسپ چیز ہے، عورت کے لئے مرد بھی کم دلچسپ چیز نہیں، اور میرا تو یہ خیال ہے کہ ایسی دلچسپ چیز خدا نے پیدا ہی نہیں کی۔۔۔ اکثر عورتیں مرد کو ان آنکھوں سے دیکھتی ہیں جن سے وہ اپنے باپ اور بھائیوں کو دیکھنے کی عادی ہیں۔ یہ غلطی ہے، سب مرد، باپ اور بھائی تو نہیں ہوتے۔

دوسرے سوال کا جواب پہلی نو میں سے پانچ لڑکیوں نے اس طور پر دیا، ’’ہم نفرت سے منہ پھیر لیتی ہیں۔ یادل ہی دل میں ان کو کوس کر خاموش ہو جاتی ہیں۔‘‘ نو میں سے باقی چار لڑکیوں نے کہا، ’’اگر اکیلی ہوں، یعنی ساتھ کوئی مرد نہ ہو تو مجبوراً خاموش ہو جانا پڑتا ہے لیکن اگر کوئی ساتھ مرد ہو تو اس کی مدد لے لی جاتی ہے۔ ایسے موقعوں پر ساتھ والے مرد اکثر یہی کہا کرتے ہیں۔ ’تمہیں شرم نہیں آتی۔۔۔ کیا تمہاری ماں بہن نہیں۔‘ یوں شرم دلانے پر ہماری تسلی ظاہر ہے کہ خاک بھی نہیں ہوتی مگر کیا کیا جائے، سر بازار جھگڑا کرنے سے تو ہم رہیں۔‘‘

ان چار لڑکیوں میں سے ایک نے کہا، ’’نہیں بابا میں تو خاموش نہیں رہ سکتی، اگر کوئی مرد میرے ساتھ ایسی حرکت کرے تو میں لڑنے مرنے پر اتر آتی ہوں۔ مجھ میں ذرہ بھر برداشت کا مادہ نہیں ہے۔ میں تو گالیوں کا تانتا باندھ دیا کرتی ہوں اور کیا مجال ہے کہ چھیڑنے والا چوں بھی کر جائے۔ شریف عورتوں سے دل لگی کرنا خالہ جی کا گھر تو نہیں اور بھئی اپنے دل کی بھڑاس تو ضرور نکال لینی چاہیئے۔ چاہے اس میں اپنی بدنامی ہی کیوں نہ ہو۔‘‘

۱۔ اگر چھیڑ چھاڑ شستہ اور تہذیب کے دائر ے کے اندر ہو تو میں مسکرا دیا کرتی ہوں، بس ذرا سی مسکراہٹ جس سے صرف داد کا اظہار ہو، ہونٹوں اور آنکھوں میں پیدا کی اور چل دیئے۔ مردوں کو زیادہ منہ نہیں لگانا چاہیئے کیونکہ زیادہ منہ لگانے سے یہ اکثر بگڑ جاتے ہیں، اگر کسی نے تہذیب سے گرا ہوا مذاق کیا تو حقارت کے آثار چہرے پر خود بخود پیدا ہو جاتے ہیں۔ چھیڑ چھاڑ کرنے والا یقینی طور پر عورت کے چہرے کی طرف دیکھتا ہے، جب اسے اپنی حماقت کا جواب مل جاتا ہے تو دل ہی دل میں خجل ہو کر ایک طرف سمٹ جاتا ہے۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ مرد خواہ کتنا ہی ذلیل ہو اس کے اندر شرم و حیا کا مادہ ضرور ہوتا ہے۔ خاص طور پر جب کوئی عورت اس کو شرمندہ کرنے کی کوشش کرے تو وہ ضرور شرمندہ ہو جاتا ہے۔

۲۔ اگر چھیڑ چھاڑ نہایت ہی عامیانہ اور بازاری قسم کی ہو تو میں نہ چھیڑنے والے کی طرف غور کرتی ہوں نہ اس کے فعل کی طرف۔ ایسے بدذوق لوگوں کو اہمیت دینا بہت بڑی غلطی ہے۔ البتہ خوش ذوق مردوں کی چھیڑ چھاڑ کی رسید ضرور دینی چاہیئے۔ صرف رسید، اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ بد شکل مردوں کی چھیڑ چھاڑ کا جواب میں اپنی زبان نکال کر یا ٹھینگا دکھا کر دیا کرتی ہوں۔ میں نے بہت کوشش کی کہ نفرت اور حقارت کا کوئی اور اچھا ذریعہ اظہار مل جائے مگر ٹھینگا دکھانے سے زیادہ آسان، بااثر اور قریب ذریعہ اظہار مجھے ابھی تک نہیں ملا۔ دراصل کہنا یہ ہوتا ہے، ’’یہ مُنہ اور مسور کی دال۔۔۔ ذرا آئینے میں رخِ مبارک تو د یکھیئے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کسی نے Gig saw puzzle نہایت بھونڈے پن سے جوڑنے کی کوشش کی ہے۔‘‘ بہت کچھ کہنے کو جی چاہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خودبخود ٹھینگا ان کی جانب اٹھ کھڑا ہوتا ہے اور دل کو تھوڑی سی تسکین حاصل ہو جاتی ہے۔۔۔ یہ میں ابھی تک نہیں سمجھ سکی کہ انگوٹھے کو ان جذبات سے کیا تعلق ہے۔

۳۔ میں مرد کے ہر حملے کا جواب دینے کی قائل ہوں، خواہ وہ کتنا ہی اوچھا کیوں نہ ہو۔ میں چاہتی ہوں کہ ہر عورت اسے اپنا اصول بنا لے۔

تیسرے سوال یعنی، ’’آپ کو کیوں چھیڑا جاتا ہے؟‘‘ کے جواب میں پہلی نو لڑکیوں اور عورتوں نے کہا، ’’جانے ہماری بلا۔۔۔ بری عادت جو ہوئی۔ جن لوگوں کے اخلاق بگڑ جائیں ایسی حرکتیں ہی تو کرتے ہیں۔ ایک دفعہ اگر ان کا دماغ جوتوں سے پلپلا کر دیا جائے تو آئندہ کبھی ان کو جرأت نہ ہو۔‘‘

باقی تین لڑکیوں نے ترتیب وار اس سوال کے جواب میں یہ کہا،

۱۔ ہم عورتوں اور مردوں کے درمیان ایک نہایت ہی لطیف پردہ حائل ہے۔ اس شفاف پردے میں سے مرد اکثر ہماری طرف تعجب آمیز دلچسپی کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔ شیشے کی الماری میں رکھی ہوئی چیزیں خواہ مخواہ دلچسپ ہو جاتی ہیں۔ ہم شیشے کی الماریوں میں رکھی ہوئی نمائشی چیزیں ہیں مگر لطف یہ ہے کہ ہمیں ان الماریوں میں خود مردوں ہی نے بند کر رکھا ہے۔

۲۔ جس پنچ پر یہ لکھا ہو، ’’روغن گیلا ہے۔‘‘ اس کو انگلی سے چھو کر ضرور دیکھا جائے گا۔ جس دیوار پر حکم امتناعی لکھا ہو، ’’یہاں اشتہار لگانے منع ہیں۔‘‘ اس پر اشتہار ضرور چسپاں کئے جائیں گے۔ جس راستے پر ’’یہ شارع عام نہیں۔‘‘ کا بورڈ لگا ہو،اس راستے سے لوگ ضرور گزریں گے۔۔۔ عورت بھی ایک قسم کا گیلا روغن ہے، وہ دیوار ہے جس پر اشتہار لگانا منع ہے، یا وہ سڑک ہے جس پر یہ ’’شارع عام نہیں‘‘ کا بورڈ لگا ہے۔

۳۔ ہمیں ا س لئے چھیڑا جاتا ہے کہ ہم چھیڑنے کی چیز ہیں۔ اگر مرد ہمیں نہ چھیڑیں تو کسے چھیڑیں۔۔۔ گھوڑیوں کو؟

چوتھا سوال یہ تھا، ’’کیا آپ مردوں کو چھیڑتی ہیں؟‘‘ اس کا جواب میں نے پہلی نو لڑکیوں سے پوچھنا مناسب خیال نہ کیا۔ باقی تین لڑکیوں میں سے پہلی دو نے کہا، ’’ہم نے آج تک اس معاملے میں کبھی پہل نہیں کی۔ در اصل ہم ڈرپوک ہیں۔ کئی دفعہ جی چاہا ہے کہ چھیڑخانی کی جائے مگر ہمت نہیں پڑی۔ ایک بات یہ بھی ہے کہ پہل مردوں ہی کی طرف سے ہونی چاہیئے۔‘‘

آخری لڑکی نے کہا، ’’کیوں نہیں، میں ضرور چھیڑتی ہوں۔ جب موقع ملے چھیڑتی ہوں، اگر موقع نہ ملے تو موقع پیدا کر لیتی ہوں۔ موقعے پیدا کرنے عورت کے لئے کیا مشکل ہیں۔ مرد کو تو موقع کی تلاش میں گھنٹوں ضائع کرنے پڑتے ہیں۔ اپنے اندرجرأت پیدا کرنی پڑتی ہے۔ ساری اونچ نیچ پر غور کرنا پڑتا ہے، مگر عورت یہ ابتدائی مرحلے طے کئےبغیر اپنا کام کر سکتی ہے۔ مرد کے چہرے پر ان ابتدائی تیاریوں کے آثار نظر آ جاتے ہیں، یعنی وہ کچھ مضطرب سا، کچھ بے وقوف سا دکھائی دیتا ہے۔ جونہی یہ آثار نظر آئیں عورت کو فوراً اپنا پستول چلا دینا چاہیئے۔ اس کی ساری تیاریاں دھری کی دھری رہ جائیں گی۔ میں تو اکثر یہی کیا کرتی ہوں۔ یوں میں نے کئی شکاری شکار کرنے سے پہلے شکار کئے ہیں۔‘‘

آخری سوال کے جواب میں پہلی نو لڑکیوں اور عورتوں میں سے صرف چار مندرجہ ذیل واقعات بیان کر سکیں۔ ایک نے کہا، میں اسکول میں پڑھتی تھی اور ہر روز تانگے پر جاتی تھی۔ ایک دن میں نے تانگہ اسٹیشنری کی دکان پر ٹھہرایا کیونکہ مجھے کوہ نور پنسل لینا تھی۔ مجھے معلوم نہیں، سائیکل پر ایک لڑکا میرے پیچھے پیچھے آ رہا تھا۔ جب میں نے پنسل نکالنے کے لئے دکاندار سے کہا تو وہ جھٹ سے آگے بڑھا اور دکاندار سے کہنے لگا، ’’ایک پنسل کوہ نور میرے لئے بھی۔‘‘ دکاندار دو پنسلیں نکال کر لے آیا۔ ’’کتنے پیسے؟‘‘ اس لڑکے نے پوچھا۔ دکاندار نے جواب دیا، ’’ساڑھے تین آنے۔‘‘ لڑکے نے پنسل پھینک دی اور کہا، ’’تم نے تو صریحاً لوٹ مچا رکھی ہے۔ دوسری دکان پر یہ پنسل تین آنے میں ملتی ہے۔‘‘ پھر وہ مجھ سے مخاطب ہوا، ’’آیئے میں آپ کو وہ دکان دکھا دوں۔‘‘

میرے جواب کا انتظار کئے بغیر اس نے سائیکل کے پیڈل پر پیر رکھا اور کوچوان کو اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کر کے چل پڑا۔ میں نے دل میں سوچا، یہ دکاندار واقعی بہت گراں فروش ہے، ضرور اس پنسل میں یہ دو پیسے زیادہ منافع لے رہا ہے۔ چنانچہ تانگہ اس لڑکے کی سائیکل کے پیچھے پیچھے چلا۔ تھوڑی ہی دور چل کر وہ سائیکل پر سے اترا اور مجھ سے کہنے لگا، ’’یہ دکان ہے۔‘‘ پھر اس نے دکاندار سے بڑی بے تکلفی کے ساتھ کہا، ’’مولوی صاحب کوہ نور کی دو پنسلیں نکا لئے گا۔‘‘ دکاندار فوراً دو پنسلیں نکال کر لے آیا۔ اس پر لڑکے نے مجھ سے کہا، ’’اس کو تین آنے دے دیجئے۔‘‘ میں نے تین آنے ادا کر دیے۔ لڑکا سامنےا سکول میں داخل ہو گیا اور میں آگے چل دی۔

اسکول جا کر میں نے ایک سہیلی سے بات کی۔ اس نے کہا، ’’کوہ نور کی پنسل تو ہر جگہ ساڑھے تین آنے میں ملتی ہے، اس دکاندار نے تین آنے میں کیسے دے دی۔‘‘ میں نے کہا، ’’تم میرے ساتھ چلو۔ میں تمہیں اس سے لے دوں گی۔‘‘ اسکول کا ٹائم ختم ہونے سے پہلے پہلے چار لڑکیاں میرے ساتھ چلنے کو تیار ہو گئیں۔ ہم سب اس دکان پر گئیں۔ میں نے چار پنسلیں ان کو اسی دام پر لے دیں۔ دوسرے روز چھ میں نے اپنے بھائی جان کے لئے خریدیں۔ شام کو جب میں اپنی استانی کے لئے بارہ پنسلیں خریدنے کے لئے اس دکان پر پہنچی تو دکاندار نے کہا، ’’وہ صاحب جو اس روز آپ کے ساتھ آئے تھے، چھ آنے جمع کرا گئے تھے، ایک پنسل انہوں نے لے لی تھی، اس کے پورے دام انہوں نے دے دیے تھے۔ گیارہ پنسلیں آپ نے لیں۔ تین آنے کے حساب سے چھ آنے میں سے جو انہوں نے یہ کمی پوری کرنے کے لئے جمع کرائے تھے، دو پیسے باقی بچتے ہیں۔ آپ ایک پنسل لے جا سکتی ہیں۔‘‘ یہ سن کر مجھے بے حد شرم آئی اور غصہ بھی بہت آیا۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ اس نے یہ شرارت کیوں کی۔ یہ واقعہ اسی وجہ سے مجھے اب تک یاد ہے۔

دوسری نے کہا، ’’میرے پیٹ میں تھا۔ ہم لوگ پہلی مرتبہ قطب دیکھنے گئے تھے اور میں آہستہ آہستہ ان کے پیچھے سیڑھیاں طے کر رہی تھی۔ ایک اندھیرا تھا، دوسرے میری طبیعت خراب تھی۔ قدم پھونک پھونک کے رکھنا پڑتا تھا۔ دم پھول رہا تھا اور سر چکرا رہا تھا۔ ان تمام مصیبتوں کے باوجود میں نے تہیہ کر رکھا تھا کہ آخری منزل تک ضرور پہنچوں گی، خواہ راستے ہی میں دم نکل جائے، لیکن دوسری منزل تک پہنچتے پہنچتے میری طبیعت اتنی خراب ہوئی کہ مجھے دیوار کا سہارا لے کر رکنا پڑا۔ دو نوجوان لڑکے میرے پیچھے پیچھے آ رہے تھے۔ ان میں سے ایک نے اپنے ساتھی سے مخاطب ہو کر کہا،’اگر قطب الدین ایبک کو اس بات کی خبر ہوتی تو لاٹھ کے بجائے اس نے یقیناً میٹرنٹی ہوم تعمیر کرایا ہوتا۔‘ دانت پیس کر ہی تو رہ گئی۔ ان اللہ کے ماروں کو مذاق بھی کب سوجھتا ہے۔‘‘

تیسری نے کہا، ’’پتا جی کی تبدیلی لاہور ہوئی تو ہم نے۔۔۔ میں ایک مکان کرائے پر لے کر رہنا شروع کیا۔ سردیوں کا موسم آیا تو میں پہلی مرتبہ دھوپ سینکنے کے لئے کوٹھے پر چڑھی۔ سامنے ہی ایک اور کوٹھا تھا۔ وہاں ایک لڑکا کھڑا تھا۔ اس نے مجھے دیکھتے ہی ہاتھ جوڑ کر نمستے کی۔ مجھے اس کی اس حرکت پر بہت غصہ آیا چنانچہ میں نے فوراً آواز دی، ’’ماتا جی!‘‘ لڑکے نے جب یہ آواز سنی تو جوڑے ہوئے ہاتھ کھول دیےاور بازو پھیلا کر ورزش شروع کر دی۔ بانہوں کے بعد اس نے ٹانگوں کی ورزش کی اور دس منٹ کے بعد مجھے دیکھتا ہُوا نیچے اتر گیا۔ اس کی اس دلچسپ حرکت پر مجھے بے حد ہنسی آئی۔ اس واقعے کو چار برس گزر چکے ہیں مگر جب کبھی میں اس لڑکے کے بستہ ہاتھوں کا تصور کرتی ہوں جو میرے ’’ماتا جی‘‘ کہنے پر ورزشی انداز میں کھل گئے تھے تو مجھے بے اختیار ہنسی آتی ہے۔‘‘

چوتھی نے کہا، ’’ہم ہر روز اسکول سے فارغ ہو کر ایک قطار میں واپس آیا کرتی تھیں۔ اسکول پرائیویٹ قسم کا تھا۔ ہمارے ساتھ ہیڈماسٹر بھی ہوا کرتا تھا۔ ایک روز اسی طرح ہم واپس آ رہی تھیں کہ ہال بازار میں ہماری چار لڑکوں سے مڈ بھیڑ ہوئی جو غالباً ہاکی کھیلنے جا رہے تھے کیونکہ ہر ایک کے ہاتھ میں اسٹک تھی۔ ان لڑکوں میں سے ایک نے ہم سب کوگھورگھور کے دیکھا۔ ہم میں کچھ بہت چھوٹی بھی تھیں۔ ان کی طرف اس نے غور نہ کیا۔ جو جوان تھیں ان کو اس نے بلند آواز میں گننا شروع کر دیا، ’’ایک۔۔۔ دو۔۔۔ تین۔۔۔ چار۔۔۔‘‘ ہیڈ ماسٹر صاحب، یہ دیکھ کر فوراً آگے بڑھے، ’’تمہیں شرم آنی چاہیئے۔‘‘

لڑکے نے جیسے ہیڈ ماسٹر صاحب کی بات سنی ہی نہیں، کہنے لگا ’’پانچ، چھ، سات، آٹھ، نو، دس۔۔۔ دس گول۔۔۔ ہاف ٹائم میں دس گول کون یقین کرے گا۔‘‘ ہیڈ ماسٹر صاحب خاموش ہو گئے۔ انہوں نے دل میں سوچا ہوگا کہ چلو اچھا ہوا، جو اس نے میری بات نہ سنی ورنہ خواہ مخواہ جھگڑا ہو جاتا۔۔۔ مجھے اس لڑکے کی یہ چالاکی کبھی نہیں بھولے گی۔ بات کا کانٹا بدلتے وقت اس کے چہرے پر مجال ہے جو ذرا بھر گھبراہٹ نظر آئی ہو۔‘‘

باقی تین لڑکیوں نے آخری سوال کے جواب میں ترتیب وار ذیل کے واقعات بیان کئے۔

۱۔ یہ بمبئی کی بات ہے، میں اور میری سہیلی دونوں بس میں ماہم کا میلہ دیکھنے جا رہی تھیں۔ موسم بہت اچھا تھا۔ شام کا وقت تھا۔ ہم بالائی منزل پر تھیں۔ ا س لئے ہوا کے جھونکے خوب مزا دے رہے تھے۔ جب بس دادر کے پل پر چڑھی تو ادھر ادھر ریلوے لائنوں کا ایک جال سا بکھرا نظر آیا۔ میرے اس طرف دوسری رو میں ایک خوش شکل لڑکا بیٹھا تھا۔ سگریٹ کے دھوئیں کے چھلے بنانے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے اس نے کھڑکی میں سے باہر جھانک کر دیکھا اور اپنے ساتھی سے کہا، ’’ہاتھی، سفید ہاتھی۔‘‘ میں نے اپنی سیٹ پر سے ذرا اٹھ کر اس طرف دیکھا، مگر مجھے ہاتھی نظر نہ آیا۔ اس پر اس لڑکے نے مجھ سے مخاطب ہو کر بڑے فلسفیانہ انداز میں کہا، ’’اسے تخیل کی فسوں کاری کہتے ہیں۔۔۔‘‘

بات بڑی معمولی ہے مگر یہ واقعہ میرے دل و دماغ میں ہمیشہ کے لئے مرتسم ہو چکا ہے۔ ’’اسے تخیل کی فسوں کاری کہتے ہیں۔‘‘ اس گورے چٹے لڑکے نے یہ فقرہ ایسے دلکش انداز میں کہا کہ میں بے حد متاثر ہُوئی۔ اس کی آنکھوں میں مصنوعی شاعرانہ پن تھا۔ چہرے پر ایک عجیب قسم کی قلندرانہ متانت تھی۔ پھر مجھے مسکراتا دیکھ کر اس کے ہونٹوں پر جو تبسم پیدا ہوا، اس میں اچھی بنی ہوئی چائے کی سی گھلاوٹ تھی۔

۲۔ سردیوں کا موسم تھا۔ رگوں میں خون منجمد ہوا جاتا تھا۔ انہی دنوں میں ہمارا ایک دور کا رشتہ دار ملازمت کی تلاش میں آیا اور کچھ دیر ہمارے پاس ٹھہرا۔ یہ لڑکا جس کی عمر بائیس برس کے قریب ہوگی، اچھے ڈیل ڈول کا تھا۔ بھرا بھرا جسم جو کسی حد تک موٹاپے کی طرف مائل تھا۔ گال سرخ، رنگ سفید جیساکہ عام طور پر کشمیریوں کا ہوتا ہے۔ دودھ پینے کا بہت قائل تھا۔ آتے ہی اس نے امی جان سے کہا، ’’آپ کو تکلیف تو ضرور ہوگی مگر میں ناشتے پر ایک گلاس دودھ اور دو کچے انڈے ضرور پیا کرتا ہوں۔ کھاتا بھی خوب ہوں۔‘‘

اس کو ورزش کا بھی شوق تھا۔ چنانچہ صبح اٹھ کر ڈمبلوں سے اکسرسائز کرتا تھا اور اس کے بعد ٹھنڈے پانی سے نہانا فخر سمجھتا تھا۔ ایک روز میں نے اس سے پوچھا، ’’اتنی سردی میں ٹھنڈے برف پانی سے نہانا کیا ضروری ہے اور پھر ہر روز۔‘‘ اس کے جواب میں اس نے اپنی چھاتی چوڑی کرتے ہوئے کہا، ’’مجھے تو بالکل سردی محسوس نہیں ہوتی۔ خدا جانے آپ لوگوں کے دانت کیوں بجتے رہتے ہیں۔ ادھر میری طرف دیکھئے صرف ایک قمیص پہنے ہوں، نیچے بنیان بھی نہیں، بہت زیادہ سردی ہو تو چند دنوں کے لئے یہ تکلف کرنا پڑتا ہے ورنہ کبھی نہیں۔‘‘

تین چار روز تک اس نے ہم سب پر اس طرح رعب گانٹھا۔ جب ملازمت نہ ملی تو مایوس ہو کر وہ میری طرف متوجہ ہوا اور کچھ چھیڑ چھاڑ شروع کی۔ مجھے چونکہ ہر روز نہانے سے اور دودھ پینے سے سخت نفرت ہے۔ اس لئے میں نے اس سے بدلہ لینے کی ٹھانی۔ اس کے اور میرے درمیان جو باتیں ہوئیں، میں بیان کرنا نہیں چاہتی۔ قصّہ مختصر یہ ہے کہ ہم نے ایک رات کوٹھی کے باہر اصطبل میں ملنا طے کر لیا۔ اب کچھ اصطبل کے متعلق۔ یہ ایک چھوٹی سی کوٹھری ہے جسے ابا جی اصطبل کہا کرتے ہیں۔ اس میں ایک عدد گائے بندھی رہتی ہے۔ رات کے بارہ بجے یعنی مقررہ وقت پر وہ اپنے کمرے سے کھسک کر اصطبل کے پاس آ گیا۔ میں بھی کسی نہ کسی طریقے سے وہاں پہنچ چکی تھی۔ جونہی وہ آیا میں نے اسے اصطبل کے اندر داخل کر دیا۔ آپ کچھ دیر یہاں کھڑے رہیں۔ میں کوٹھی کے اندر جا کر اپنا اطمینان کر آؤں۔ ممکن ہے کوئی جاگتا ہو۔ اس نے جب گائے کو دیکھا تو ٹھٹکا۔ میں نے مسکرا کر کہا، ’’آپ کو تو اس کے دودھ سے بہت پیار ہے۔ ڈرتے کیوں ہیں میں ابھی آئی۔‘‘ میں نے اس کو اندر داخل کیا اور باہر سے دروازہ بند کر کے کنڈی چڑھا دی۔

صبح چھ بجے کے قریب اتفاقاً جب میری آنکھ کھلی تو مجھے اس کا دھیان آیا۔ میرا دل دھک دھک کرنے لگا۔ دوڑی دوڑی گئی۔ کواڑ کے ایک سوراخ سے میں نے اندر دیکھا۔ وہ گائے کا کالا اور کھردرا کمبل اوڑھے گائے پر بیٹھا تھا۔ میں نے دروازہ کھولا اور اس سے کہا، ’’معاف کیجئے گا۔ میں نے واپس آنے کی بہت کوشش کی مگر امی جان نے مجھے اپنے ساتھ لٹا لیا۔ انہیں بہت سردی لگ رہی تھی۔ میں کیسے آپ سے معافی مانگوں۔ آپ کو بہت تکلیف ہوئی ہوگی۔‘‘ اس نے میری کسی بات کا جواب نہ دیا۔ شکر ہے کہ گھر میں کسی کو اس واقعے کی خبر نہ ہوئی۔ آٹھ بجے کے قریب اس نے نوکر کو بلایا اور کہا، ’’آج میں گرم پانی سے نہاؤں گا۔‘‘ پھر نو بجے جب ناشتہ چنا گیا تو اس نے دودھ پینے سے انکار کر دیا، ’’میں آج چائے پیوں گا۔‘‘ مجھے اس قدر مسرت حاصل ہوئی کہ میں بیان نہیں کر سکتی۔ اب اس سے میری باقاعدہ خط و کتابت جاری ہے۔

۳۔ دو برس پہلے کی بات ہے جس کا میری شرارت پسندیوں سے کوئی تعلق نہیں۔ یوں تو میری زندگی میں ایسے بہت سے واقعے ہیں جو یاد رکھنے کے قابل ہیں، لیکن یہ واقعہ جو میں اب بیان کروں گی، ایسا ہے جو مجھے ہمیشہ یاد رہے گا۔ میں بہت شریر ہوں۔ حاضر جواب تو بلا کی ہوں۔ میں کبھی پریشان نہیں ہوئی تھی لیکن زندگی میں پہلی مرتبہ جب مجھے پریشانی کا سامنا کرنا پڑا تو عجیب و غریب لطف کا احساس ہوا۔ جیساکہ آپ کو واقعے کے بیان سے معلوم ہوگا۔ میری پریشانی کا باعث کسی مرد کی چالاکی یا ہوشیاری نہیں تھی بلکہ محض ایک حادثے کی وجہ سے مجھے بے حد خفیف ہونا پڑا۔

میں نے ٹریم میں کبھی سفر نہیں کیا تھا لیکن مجبوراً ایک روز مجھے اس میں سوار ہونا پڑا۔ مجھے جلدی پہنچنا تھا۔ بس آنے میں پانچ منٹ باقی تھے۔ ٹریم سامنے کھڑی تھی، چنانچہ میں اس میں بیٹھ گئی۔ میرے سامنے ایک بہت ہی موٹا پارسی بیٹھا تھا۔ اس کی توند اس قدر بڑھی تھی اور اس کی گردن جس پر کلف لگا کالر چڑھا تھا، اس قدر موٹی تھی کہ اگر وہ نیچے فرش کی طرف دیکھنا چاہتا تو اسے لیٹنا پڑتا۔ مجھے سخت زکام ہو رہا تھا۔ میرے ہاتھ میں ایک چھوٹا سا ریشمی رومال تھا جس سے میں بار بار اپنی ناک صاف کر رہی تھی۔ جب ٹریم چلی تو لال باغ کے قریب ہوا کا ایک زبردست جھونکا آیا۔ رومال میرے ہاتھ سے اڑا اور اس موئے پارسی کی ران پر جا گرا۔ کچھ دیر تک میں نے دل ہی دل میں کئی طریقے یہ رومال حاصل کرنے کے لئے سوچے۔ یہ بھی خیال آیا کہ اسے مخاطب کر کے کہوں، میرا رومال گرگیا ہے، براہ مہربانی مجھے دے دیجئے۔ لیکن سوچا کہ وہ گردن جھکا کر کیسے دیکھ سکے گا۔ میں نے خود اس کو بتا کر وہاں سے رومال اٹھانا نہیں چاہتی تھی، چنانچہ میں نے ارادہ کر لیا کہ چپ چاپ آنکھ بچا کر دو انگلیوں کی مدد سے بالکل آہستگی کے ساتھ اسے اٹھا لوں گی۔ میں نے کئی مرتبہ کوشش کی لیکن ہر بار اس ڈر کے مارے کہ ٹریم میں بیٹھا ہوا کوئی اور آدمی دیکھ لے گا۔ مجھے اپنا ہاتھ کھینچنا پڑا۔

مجھے غیر معمولی طور پر مضطرب دیکھ کر پارسی کو ایسا محسوس ہوا کہ فضا میں کچھ گڑبڑ سی ہے، مجھے کھڑکی میں سے باہر جھانکتے دیکھ کر کئی مرتبہ اسے بھی اپنی اکڑی ہوئی گردن موڑ کر باہر جھانکنا پڑا۔ چاہیئے تو یہ تھا کہ میں اس رومال کو وہیں چھوڑ دیتی اور بازار سے ایک اور خرید لیتی مگر وہ ایک دوست کا تحفہ تھا اس لئے مجھے بے حد عزیز تھا۔ میں نے آخری بار ارادہ کر کے جب ہاتھ اس طرف بڑھایا تو پارسی بے چین ہو گیا۔ میں اس کی طرف خدا معلوم کن نگاہوں سے دیکھ رہی تھی۔ اس کو اب پکا یقین ہو گیا کہ میرے اضطراب کا باعث اس کا کوئی ایسا نقص ہے جس سے وہ ابھی تک غافل ہے۔ اس نے بڑی وقت سے اپنی گردن جھکائی۔ موٹے موٹے گدگدے ہاتھ رانوں پر ادھر ادھر پھیرے، ایک ہاتھ کے نیچے میرا رومال آیا۔ ایک دم اس کا چہرہ لال سرخ ہو گیا۔

جلدی سے بڑی پھرتی کے ساتھ اس نے انگلیوں کی مدد سے میرے اس ننھے سے رومال کو اپنی پتلون کے اندر داخل کر لیا۔۔۔ کم بخت نے یہ خیال کیا کہ اس کی قمیص کا دامن باہر نکلا ہوا ہے۔ ادھر اس کا چہرہ لال ہو رہا تھا ادھر میرا۔ ہم دونوں اپنی اپنی جگہ پر شرم محسوس کرتے رہے۔ میں تو اس حادثے کو زیادہ دیر تک برداشت نہ کر سکی۔ جونہی ٹریم ٹھہری میں اس پارسی کی طرف دیکھے بغیر اتر گئی۔ میں اس واقعے کو قریب قریب بھول چکی تھی کہ چھ یا سات مہینے کے بعد کرا فورڈ مارکیٹ کے پاس جب کہ میں ایک دکان سے بھنا ہوا پستہ لے رہی تھی۔ ایک خوش پوش نوجوان میرے قریب آیا۔ اس نے اپنی جیب میں سے باریک کاغذ میں لپٹی ہوئی ایک چیز نکالی اور مجھ سے کہا، ’’معاف فرمایئے گا۔ آپ کی ایک چیز گُم ہو گئی تھی جو مجھے مل گئی۔ آج حاضر کر رہا ہوں۔‘‘

میں نے باریک کاغذ کھول کر دیکھا تو میرا چہرہ کانوں تک سرخ ہو گیا۔۔۔ وہی رومال تھا جو اس موئے پارسی نے اپنی پتلون میں داخل کر لیا تھا۔۔۔ مجھے بے حد شرم محسوس ہوئی۔ غصّہ بھی بہت آیا۔ تھوڑی سی ہنسی بھی آئی اور میں حیران ہوں کہ ایک دم میری آنکھوں میں آنسو بھی آ گئے۔۔۔ شاید ا س لئے کہ میں نے اس نوجوان کو اب پہچان لیا تھا۔ ٹریم میں یہ اس روز دور ایک کونے میں بیٹھا تھا۔۔۔ مجھے کوئی بات نہ سوجھی۔۔۔ ٹھیک طور پر میں اپنے کھسیانے پن کا بھی اظہار نہ کر سکی۔


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.