کچھ طبیعت آج کل پاتا ہوں گھبرائی ہوئی
کچھ طبیعت آج کل پاتا ہوں گھبرائی ہوئی
شہر بھر میں ہے اداسی ہر طرف چھائی ہوئی
ہائے رے غارت گر صبر و شکیبائی ہوئی
وہ تری ترچھی نظر وہ آنکھ شرمائی ہوئی
اے صبا چلتی ہے کیوں اس درجہ اترائی ہوئی
کیا نہیں ہے تو وہی اس گل کی ٹھکرائی ہوئی
وصل میں اچھی طرح جب بادہ پیمائی ہوئی
اڑ گئی کافور بن بن کر حیا آئی ہوئی
شب کو جب ابرو و مژگاں کی صف آرائی ہوئی
شوخیوں میں دب گئی شرم و حیا آئی ہوئی
ہائے میری بے قراری اور ان کا اضطراب
اور چلتے وقت کی باتیں وہ گھبرائی ہوئی
قبر تک پہونچا گئے سارے عزیز و اقربا
آگے آگے پھر رفیق راہ تنہائی ہوئی
ہاں تمہیں پر جان دیتا ہوں تمہیں پر ہوں نثار
ہاں تمہیں پر ہے طبیعت ٹوٹ کر آئی ہوئی
ٹکڑے ٹکڑے ہیں جگر کے شیشۂ دل چورچور
یہ قیامت ہے تمہاری چال کی ڈھائی ہوئی
جس میں طاقت ہے نہ حرکت ہے نہ خواہش ہے نہ جاں
دل نہیں اک لاش ہے سینہ میں دفنائی ہوئی
بیٹھتے ہی بیٹھتے محفل میں بے خود ہو گیا
دیکھتے ہی دیکھتے رخصت توانائی ہوئی
خوب رونے دو کہ یہ روکے سے رک سکتا نہیں
میرے دل پر ہے ابھی غم کی گھٹا چھائی ہوئی
آب دیدہ ہو کے وہ آپس میں کہنا الوداع
اس کی کم میری سوا آواز بھرائی ہوئی
منتیں کرتا ہوں درگزرو خدارا بخش دو
اب تو نادانی ہوئی یا مجھ سے دانائی ہوئی
شکوۂ وعدہ خلافی کا ملا اچھا جواب
پیشگی رکھی تھی اک امید بر آئی ہوئی
حور پر میری طبیعت آئے کیا مقدور ہے
توبہ توبہ یہ بھی تیری طرح ہرجائی ہوئی
خود ہی سوچو دیکھنے والوں کا اس میں کیا قصور
جب تماشا تم ہوئے خلقت تماشائی ہوئی
روتے روتے ٹھہر جاتا ہوں تری سر کی قسم
یاد آ جاتی ہے جب وہ بات سمجھائی ہوئی
دے کے دل غصہ میں واپس ان کو پچھتانا پڑا
کیا رقم جاتی رہی ہے ہاتھ سے آئی ہوئی
خوش نصیبی اس جگہ کی تو جہاں رکھے قدم
ریل بھی پھرتی ہے اسٹیشن پر اترائی ہوئی
جب کہا اس نے کہ مرتا ہوں تو کوسا اس طرح
تجھ کو آئے یا الٰہی غیر کی آئی ہوئی
ربط بڑھنے پر کھلا کرتا ہے کچھ اچھا برا
اس سے کیا ہوتا ہے گر رسمی شناسائی ہوئی
عشق بازی اور شے ہے فسق ہے کچھ اور چیز
نیک نامی کو نہ کہہ پرویںؔ کہ رسوائی ہوئی
This work is in the public domain in the United States but it may not be in other jurisdictions. See Copyright.
| |