کچھ بدگمانیاں ہیں کچھ بد زبانیاں ہیں
Appearance
کچھ بدگمانیاں ہیں کچھ بد زبانیاں ہیں
مدت سے ان کی ہم پر یہ مہربانیاں ہیں
آتا ہے جب کسی پر رکتا نہیں ہے ہرگز
مانند موج دریا دل کی روانیاں ہیں
پیدا کہاں ہیں ہوتے اب ذوقؔ اور غالبؔ
ہاں داغؔ اور حالیؔ ان کی نشانیاں ہیں
جو پاس تھا وہ کھویا نام سلف ڈبویا
کیا خاک اپنی اے دل اب زندگانیاں ہیں
اے دل نہ چھیڑ قصہ ہو درد جس سے پیدا
یہ شعر خوانیاں ہے یا نوحہ خوانیاں ہیں
کیا ہم نے یہ نکالی طرز غزل نرالی
کچھ گلفشانیاں ہیں کچھ خوں فشانیاں ہیں
باد خزاں نے گلشن ویراں کیا ہے سارا
بلبل کی اب کہاں وہ رنگیں بیانیاں ہیں
جور و جفا کے ایسے ہم ہو گئے ہیں خوگر
نا مہربانیاں بھی اب مہربانیاں ہیں
اے مشرقیؔ جہاں میں دیکھا یہی تماشا
کچھ ماتم و الم ہے کچھ شادمانیاں ہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |