Jump to content

کچھ ایسا پاس غیرت اٹھ گیا اس عہد پر فن میں

From Wikisource
کچھ ایسا پاس غیرت اٹھ گیا اس عہد پر فن میں
by برج نرائن چکبست
298747کچھ ایسا پاس غیرت اٹھ گیا اس عہد پر فن میںبرج نرائن چکبست

کچھ ایسا پاس غیرت اٹھ گیا اس عہد پر فن میں
کہ زیور ہو گیا طوق غلامی اپنی گردن میں

شجر سکتے میں ہیں خاموش ہیں بلبل نشیمن میں
سدھارا قافلہ پھولوں کا سناٹا ہے گلشن میں

گراں تھی دھوپ اور شبنم بھی جن پودوں کو گلشن میں
تری قدرت سے وہ پھولے پھلے صحرا کے دامن میں

ہوائے تازہ دل کو خود بخود بے چین کرتی ہے
قفس میں کہہ گیا کوئی بہار آئی ہے گلشن میں

مٹانا تھا اسے بھی جذبۂ شوق فنا تجھ کو
نشان قبر مجنوں داغ ہے صحرا کے دامن میں

زمانہ میں نہیں اہل ہنر کا قدر داں باقی
نہیں تو سیکڑوں موتی ہیں اس دریا کے دامن میں

یہاں تسبیح کا حلقہ وہاں زنار کا پھندا
اسیری لازمی ہے مذہب شیخ و برہمن میں

جنہیں سینچا تھا خون دل سے اگلے باغبانوں نے
ترستے اب ہیں پانی کو وہ پودے میرے گلشن میں

دکھایا معجزہ حسن بشر کا دست قدرت نے
بھری تاثیر تصویر گلی کے رنگ و روغن میں

شہید یاس ہوں رسوا ہوں ناکامی کے ہاتھوں سے
جگر کا چاک بڑھ کر آ گیا ہے میرے دامن میں

جہاں میں رہ کے یوں قائم ہوں اپنی بے ثباتی پر
کہ جیسے عکس گل رہتا ہے آب جوئے گلشن میں

شراب حسن کو کچھ اور ہی تاثیر دیتا ہے
جوانی کے نمو سے بے خبر ہونا لڑکپن میں

شباب آیا ہے پیدا رنگ ہے رخسار نازک سے
فروغ حسن کہتا ہے سحر ہوتی ہے گلشن میں

نہیں ہوتا ہے محتاج نمائش فیض شبنم کا
اندھیری رات میں موتی لٹا جاتی ہے گلشن میں

متاع درد دل اک دولت بیدار ہے مجھ کو
در شہوار ہیں اشک محبت میرے دامن میں

نہ بتلائی کسی نے بھی حقیقت راز ہستی کی
بتوں سے جا کے سر پھوڑا بہت دیر برہمن میں

پرانی کاوشیں دیر و حرم کی مٹتی جاتی ہے
نئی تہذیب کے جھگڑے ہیں اب شیخ و برہمن میں

اڑا کر لے گئی باد خزاں اس سال اس کو بھی
رہا تھا ایک برگ زرد باقی میرے گلشن میں

وطن کی خاک سے مر کر بھی ہم کو انس باقی ہے
مزا دامان مادر کا ہے اس مٹی کے دامن میں


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.