کپی کا بچہ
تھا کپی کا بچہ اک درویش پاس
باش و بود اس کی تھی مجھ دل ریش پاس
اس قلندر نے بہ حسب احتیاج
بیچنے اس کو نکالا لاعلاج
میں نے اس کو ایک جا دلوا دیا
مول ٹھہرا تھا جو کچھ سو لا دیا
بوزنہ یا کوئی تحفہ دہر کا
عزت افزا بندرابن شہر کا
نام منوا اس کا اب مشہور ہے
شوخی اس کی ہر کہیں مذکور ہے
ہے ہنومانی نسب یہ باب دید
قابل وصف اس کے حضرت بوحمید
ہے جو لکھو بندری مشہور اب
اس کی جد مادری تھی بوالعجب
اس کے پردادا نے ہے یہ حرف دی
ایک دم لابہ میں لنکا پھونک دی
ایک چنچل ہے بلاے روزگار
ہاتھ رہ جائے تو پا سرگرم کار
ہے تو بچہ سا ولیکن دور ہے
پست اس کی جست کا لنگور ہے
کیا کوئی انداز شوخی کا کہے
ہو معلق زن تو آدم تک رہے
اچپلاہٹ اس کی سب معلوم ہے
معرکوں میں چوک کے اک دھوم ہے
ہوتے ہیں قراد کب دیکھے سے سیر
اچپلی اس کی رہے ہے یاد دیر
حرکتیں دلکش ہیں سب انداز خوب
پر ضروری ہے کہ ہاتھوں میں ہو چوب
ورنہ بوٹا سا جو قد ہے جھاڑ ہے
کٹکھنا نچنا ہے کپڑے پھاڑ ہے
لونڈی باندی سب کو اس سے احتراز
ڈر سے اکثر بیبیوں کے دل گداز
یہ جو چاہے چھوٹے تو تدبیر کیا
رسی ڈوری لوہے کی زنجیر کیا
ربط اسے جس سے ہے اس سے ربط ہے
مار کھانے پر بھی اس کو ضبط ہے
جب وہ چھوٹے شور و ہنگامے رہیں
اب تو چھوٹا اب تو چھوٹا سب کہیں
چھوٹتا ہے گر پڑے کوئی بجوگ
بندروں سے ناچتے پھرتے ہیں لوگ
ہوتے ہیں اس جنس میں بھی ذی خرد
آدم و حیواں میں یہ برزخ ہیں بد
طنز ہے یہ بات اگرچہ ہے کہی
جو کرے انسان تو بوزینہ بھی
لیکن اس جاگہ تو صادق ہے یہ قول
سارے اس کے آدمی کے سے ہیں ڈول
ہے تماشا آئینے کے روبرو
عکس سے اپنے اسے ہے گفتگو
دیکھنا جھک جھک کے اس کا ہو نہ ضبط
آرسی بندر کا ہے مشہور ربط
گاہ بوسہ گاہ غرغر بولنا
گاہ آنکھیں موندنا گہ کھولنا
آگے تھا اک بوزنہ شطرنج باز
چال سے اس کی نکلتا امتیاز
کہنہ قرادوں سے ہم کو یاد ہے
یہ اسی فتان کا داماد ہے
جان دیں بندر اگر دیکھیں چنے
رہتے ہیں چانول پڑے اس کے کنے
آنکھ کب دوڑے ہے اس کی ہر طرف
ہے یہ اپنے نوع کا فخر و شرف
الغرض منوا عبارت جاں سے ہے
نام اس دلکش کا منوا یاں سے ہے
خوش رہے منوا تو خوش احوال میرؔ
ورنہ آدم ہے جوانی میں بھی پیر
دہر میں یارب نہ یہ محزوں رہے
جس کا منوا ہے اسے میموں رہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |