کوچہ میں جو اس شوخ حسیں کے نہ رہیں گے
کوچہ میں جو اس شوخ حسیں کے نہ رہیں گے
تو دیر و حرم کیا ہے کہیں کے نہ رہیں گے
نزدیک کبھی خلد بریں کے نہ رہیں گے
ہم سایہ بھی اب ہم تو حسیں کے نہ رہیں گے
میں صید ہوں وحشی مجھے فتراکی کہلوا
دو تار بھی اب دامن ذہن کے نہ رہیں گے
پر وائے وسیلہ ہو سلیماں کو مبارک
ہم نام کو محتاج نگیں کے نہ رہیں گے
مر جائیں گے اظہار تمنا ہی سے پہلے
سننے کو ترے منہ سے نہیں کے نہ رہیں گے
مرزا منشی اپنی گورا نہ کریں گے
سننے کو قصص چین جبیں کے نہ رہیں گے
سن لیں گے جو مجھ غمزدہ کے نالۂ موزوں
مشتاق وہ دیوان حزیں کے نہ رہیں گے
دروازہ کا پردہ تو رہے کان کا پردہ
ہم روبرو اس پردہ نشیں کے نہ رہیں گے
اللہ نے چاہا تو ہم اے برہمن دیر
مشتاق کسی لعبت چیں کے نہ رہیں گے
رخسار سے تشبیہ تری دیں گے ہم اے جان
جب داغ رخ ماہ مبیں کے نہ رہیں گے
اوڑھتے ہوئے یہ طائر رنگ اپنا جو دیکھا
تو ہوش بجا روح امیں کے نہ رہیں گے
کس درد کی آواز سے چلائی ہے بلبل
ہم پاس تو اس مرغ حزیں کے نہ رہیں گے
دیکھیں گے جو اس بت کو تو واللہ یقیں ہے
ایمان بجا اہل یقیں کے نہ رہیں گے
پابند رہے کون یہاں نام کی خاطر
حلقہ میں کبھی مثل نگیں کے نہ رہیں گے
ہم ڈھونڈتے پھرتے ہیں تجھے دیر و حرم میں
گر ہے یہ تمنا تو کہیں کے نہ رہیں گے
پابند ہوئے شکل اسیر اب تو یہاں مہرؔ
ایسا ہی جو دل ہے تو کہیں کے نہ رہیں گے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |