Jump to content

کون وقت اے وائے گزرا جی کو گھبراتے ہوئے

From Wikisource
کون وقت اے وائے گزرا جی کو گھبراتے ہوئے
by محمد ابراہیم ذوق
296590کون وقت اے وائے گزرا جی کو گھبراتے ہوئےمحمد ابراہیم ذوق

کون وقت اے وائے گزرا جی کو گھبراتے ہوئے
موت آتی ہے اجل کو یاں تلک آتے ہوئے

آتش خورشید سے اٹھتا نہیں دیکھا دھواں
آ کھڑے ہو بام پر تم بال سکھلاتے ہوئے

چاک آتا ہے نظر پیراہن صبح بہار
کس شہید ناز کو دیکھا ہے کفناتے ہوئے

وہ نہ جاگے رات کو اور ضد سے بخت خفتہ کی
بج گیا آخر گجر زنجیر کھڑکاتے ہوئے


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.