کون سا تن ہے کہ مثل روح اس میں تو نہیں
کون سا تن ہے کہ مثل روح اس میں تو نہیں
کون گل ہے جو ترا مسکن برنگ بو نہیں
جام نرگس میں کہاں شبنم جو نکلے آفتاب
یار کے آگے مری آنکھوں میں اک آنسو نہیں
یاد گیسو میں ہوا میرا یہ دھجی سا بدن
مجھ پہ پھبتی کہتے ہیں موباف ہے گیسو نہیں
جسم ایسا گھل گیا ہے مجھ مریض عشق کا
دیکھ کر کہتے ہیں سب تعویذ ہے بازو نہیں
دیکھے ہیں ہنسنے میں جس دن سے در دندان یار
چین مثل گوہر غلطاں کسی پہلو نہیں
عشق میں بدمست ہوں میں پر کوئی واقف نہیں
نشہ ہے جام مئے الفت میں لیکن بو نہیں
زلف جاناں میں نہیں کوئی دل وحشی اسیر
یہ عجب تاتار ہے جو ایک بھی آہو نہیں
ہو گیا ہے یہ قران آفتاب و ماہ نو
یار کے رخسار آتش رنگ پر ابرو نہیں
ہو گیا ہے مثل مو تار نگہ اپنا سیاہ
آگے آنکھوں کے صنم جب سے ترے گیسو نہیں
رات دن ناقوس کہتے ہیں بآواز بلند
دیر سے بہتر ہے کعبہ گر بتوں میں تو نہیں
قمریاں دیوانی ہیں کیونکر گلے میں ہو نہ طوق
باغ میں اک سرو مثل قامت دل جو نہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |