کون دنیا سے بادہ خوار اٹھا
Appearance
کون دنیا سے بادہ خوار اٹھا
چشم تر ابر نو بہار اٹھا
کھا کے غش گر پڑے کھڑے بیٹھے
بیٹھ کر اس ادا سے یار اٹھا
آتش عشق دیکھ کر مالک
الاماں الاماں پکار اٹھا
درد تعظیم مرگ کو دل میں
شب فرقت ہزار بار اٹھا
جیتے جی دور آسمانی میں
نہ زمیں سے یہ خاکسار اٹھا
ابر رحمت نے دے دیا چھینٹا
بعد مرنے کے جب غبار اٹھا
وحشت دل نے پھر نکالے پاؤں
پھر تحمل کا اختیار اٹھا
پھر جنوں فصل گل میں لایا رنگ
پھر میں ہونے کو شرمسار اٹھا
حال بیمارؔ جائے رقت ہے
مرہم دل کا اعتبار اٹھا
چور زخم جگر میں بیٹھ گیا
چارہ گر ہو کے شرمسار اٹھا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |