کوئی معیار محبت نہ رہا میرے بعد
کوئی معیار محبت نہ رہا میرے بعد
ہر طرف عام ہیں خاصان وفا میرے بعد
سلسلہ ان کے ستم کا نہ رہا میرے بعد
بدلا بدلا سا ہے دستور جفا میرے بعد
کون پہنے گا گلے میں تری الفت کی کمند
کس کے سر ہوگی تری زلف دوتا میرے بعد
ہوں گی قربان ترے رخ پہ نگاہیں کس کی
چاند ہو جائے گا ہالے سے جدا میرے بعد
سوچتا ہوں کہ بہ ایں عالم بیتابیٔ دل
کون مانگے گا محبت کی دعا میرے بعد
داد چاہیں گے مری طرح مٹا کر کس کو
عشوہ و غمزۂ انداز و ادا میرے بعد
ٹھوکریں کھاتی پھرے گی شب یلدائے فراق
خون روئے گی ہر اک تازہ بلا میرے بعد
سونی سونی سی ہے ہر محفل ایذا طلبی
جیسے دنیا میں کوئی غم نہ رہا میرے بعد
خیرہ ہو جاتی تھی جس سے نگہ صبر و قرار
ان کے لب پر وہ تبسم نہ رہا میرے بعد
کیا خبر تھی کہ میں خود ساتھ نہ دوں گا اپنا
گوشت ہو جائے گا ناخن سے جدا میرے بعد
فطرت حسن کو ہے ایسے ستم کش کی تلاش
جو وفا پر بھی کرے عذر خطا میرے بعد
زرد کر دے گا اسے میری تباہی کا خیال
رنگ لایا بھی اگر رنگ حنا میرے بعد
ان کا دیوانہ تو کہلانا ہے مشکل باسطؔ
کوئی دیوانہ اگر بن بھی گیا میرے بعد
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |