کوئی ان تنگ دہانوں سے محبت نہ کرے
Appearance
کوئی ان تنگ دہانوں سے محبت نہ کرے
اور جو یہ تنگ کریں منہ سے شکایت نہ کرے
عشق کے داغ کو دل مہر نبوت سمجھا
ڈر ہے کافر کہیں دعوائے نبوت نہ کرے
ہے جراحت کا مری سودۂ الماس علاج
فائدہ اس کو کبھی سنگ جراحت نہ کرے
ہر قدم پر مرے اشکوں سے رواں ہے دریا
کیا کرے جادہ اگر ترک رفاقت نہ کرے
آج تک خوں سے مرے تر ہے زبان خنجر
کیا کرے جب کہ طلب کوئی شہادت نہ کرے
ہے یہ انساں بڑے استاد کا شاگرد رشید
کر سکے کون اگر یہ بھی خلافت نہ کرے
بن جلے شمع کے پروانہ نہیں جل سکتا
کیا بڑھے عشق اگر حسن ہی سبقت نہ کرے
پھر چلا مقتل عشاق کی جانب قاتل
سر پہ برپا کہیں کشتوں کے قیامت نہ کرے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |