کنول
ہم دونوں کے مکان پاس ہی پاس تھے۔ کنول کے پتا تحصیلدار اور میرے ماموں انسپکٹر پولیس تھے۔ کنول مجھ سے چار پانچ سال چھوٹی تھی۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے بھولا نہیں کہ بچپن میں صبح کے وقت خاک و ہول میں لت پت ہوکر زمین پر گھروندے بنانا ہمارا دل پسند کھیل تھا۔ کنول جب گڑیا گڈے کا کھیل کھیلتی تو میں بھی شریک ہوجاتا۔ اس کی سہیلیاں کنول سے بگڑکر کہتیں ’’واہ جی واہ! لڑکیوں میں لڑکے کا کیا کام؟‘‘ مگر کنول میرا ساتھ دیتی۔ وہ میرے بغیر کوئی کھیل نہ کھیلتی۔ کبھی کھیل ہی کھیل میں وہ میری بہو بن جاتی، میرے روٹھنے پر وہ میری دلجوئی کرتی اور جب وہ خود کبھی خفا ہوجاتی تو میں خوشامدیں کرکے اسے منالیتا۔ کیسے اچھے دن تھے زندگی ایک خوشنما ہمواری تھی جس میں خزاں کا گزر نہ تھا۔ بہار ہی بہار تھی۔ کنول اس پھلواری کی خوشنما کلی تھی روپ رنگ سے، وہ ایک راج کماری معلوم ہوتی تھی۔ صاف نکھرا ہوا رنگ۔ موہنی صورت۔ سارا دن مینا کی طرح باتیں کرتی تھی۔ گھروالوں کے لیے تو وہ کھلونا تھی میں بھی اس کے بغیر نہیں رہ سکتا تھا۔ کسی بچہ کو کھلونا اور کسی کو تصویر پسند ہوتی ہے لیکن میں تو کنول اور صرف کنول کو چاہتا تھا۔ اگر بالے پن کا پریم گناہ نہ سمجھائے جائے تو مجھے یہ کہنے میں بالکل جھجک نہیں معلوم ہوتی کہ مجھے اس سے پریم تھا۔
میں اس کی موہنی صورت کو گھنٹوں دیکھا کرتا تھا اور سمجھتا تھا کہ اس کا حق صرف مجھ ہی کو ہے۔ اس خیال سے میرا دل چاندنی رات کی طرح کھل جاتا تھا۔ انسان لڑکپن میں سیکڑوں غلطیاں کرتا ہے، یہ بھی ان میں سے ایک ایسی غلطی تھی جس کی وجہ سے سماج نے مجھے برادری سے جداکردیا۔ کنول کے پتا پرانے خیالات کے دکشت برہمن تھے۔ نئی روشنی والوں کو اچھی نظر سے نہ دیکھتے تھے خود شہر کے باشندے مگر ان کی بیوی دیہات کی رہنے والی تھی۔ وہ تعلیم نسواں کے بھی خلاف تھے۔ لیکن کنول کے ماموں نے جو ایک روشن خیال ڈاکٹر تھے چپکے چپکے کنول کو ہندی کی ابتدائی کتابیں پڑھادیں۔ جب ایک دن تحصیلدار صاحب نے کنول کو خوش الحانی کے ساتھ تلسی کرت رامائن کا پارٹ کرتے سنا تو وہ بہت خوش ہوئے اور انہوں نے کنول کو تعلیم کاسلسلہ جاری رکھنے کی خوشی سے اجازت دے دی۔ دیوریا تحصیل میں لڑکیوں کے لیے ایک پاٹ شالہ اور لڑکوں کے لیے مڈل اسکول تھا۔ جب کنول پاٹ شالہ میں داخل کی گئی تو مجھے بھی ماموں صاحب نے اسکول میں داخل کردیا۔ اسکول جانے اور وہاں سے واپس آنے میں ہم دونوں کی ملاقات ہوجاتی تھی۔ اسی طرح سے ہنسی خوشی میں لڑکپن کا زمانہ ختم ہوگیا اور بچپن کی بے لوث محبت شباب کی جذبات آلود محبت میں منتقل ہوگئی۔ آج قریب بیس سال ہوگئے لیکن بالے پن کی محبت کا پہلا سبق مجھے آج تک نہیں بھولا اور نہ جیتے جی بھولوں گا۔
بھادوں کا مہینہ تھا۔ کپاس کے پھولوں کی سرخ و سفید ملاحت۔ تل کی اودی بہار اور سن کی شوخ زردی کھیتوں میں بہار دکھا رہی تھی۔ کسانوں کے منڈھوں اور چھپروں پر بھی لوکی اور ترئی کے پھولوں کی بہار تھی۔ اس پر پانی کی ہلکی ہلکی پھواریں قدرتی حسن پر مشاطہ کا کام دے رہی تھیں۔ جس طرح عارفوں کے دل نورِحقیقت سے لبریز ہوتے ہیں اسی طرح ندی اور تالاب پانی سے بھرے ہوئے تھے۔ شاید راجہ اندر کیلاش کی طراوٹ بیز بلندیوں سے اترکر اب میدان میں آنے والے تھے ۔تحصیل دار صاحب اور ماموں جی کہیں دیہات میں دورے پر گئے ہوئے تھے۔ تحصیلی کے پاس ہی ایک باغیچہ تھا۔ قریباً چار بجے سے پہر کا وقت ہوگا میں مالی کی جھونپڑی میں چپ چاپ بیٹھا قدرت کی گلکاری کا نظارہ کر رہا تھا کہ پیچھے سے کنول پکوان کی تھال لے کر آگئی۔ اس نے کہا ’’پریم!‘‘ میرانام کچھ اور ہے۔ لیکن کنول مجھے پریم کہتی تھی۔ میں اس خطاب سے خوش تھا، اس خطاب نے مجھے مجسم پریم بنادیا۔ میں نے مڑ کر دیکھا جس طرح تالاب میں کنول کا لہرانا بہت خوبصورت معلوم ہوتا ہے اسی طرح میری کنول کی خوبصورتی ہنسی کی لہروں میں جگمگارہی تھی۔ اس دن سے پہلے میں نے کبھی محبت کااظہار نہ کیا تھا۔ مجھے کبھی اس کی جرأت ہی نہ ہوئی تھی۔ لیکن آج میں اپنے دل پر قابو نہ رکھ سکا۔ میں نے صبح کو کنول کے نوشگفتۂ پھول تالاب سے توڑے تھے۔ وہ لاکھ ’’ہاں۔ ہاں‘‘ کرتی رہی مگر میں نے آگے بڑھ کر ان پھولوں کو اس کے جوڑے میں لگادیے اور جس طرح ایک پجاری مورتی کے سامنے ڈنڈوت کرتا ہے۔ میں نے بھی ہاتھ جوڑ کر کہا ’’دیوی جی، پرنام‘‘۔ پہلے تو اس نے تیوری چڑھائی پھر یکبارگی اس کے چہرہ پر متنانت آگئی۔ اس نے زبان سے تو ایک لفظ نہ کہا لیکن نیچی نگاہیں اور حیاس سے سرخ رخساروں نے میری دل پر ایسا اثر کیا کہ میں نے آگے بڑھ کر اس کی بلائیں لے لیں۔ وہ بھی بے خودی میں میرا ہاتھ تھام کر بیٹھ گئی۔ دونوں میں سے کسی کے منھ سے کوئی بات نہ نکلی۔ مولسری کی شاخوں کے کان میں ہوا کے جھونکوں نے جو سرگوشیاں کیں شام تک بیٹھے ہم وہی سنتے رہے۔ پکوان کھانے کا کسی کو ہوش ہی نہ رہا۔
دوسری ہی دن ہماری محبت کا افسانہ مشہور ہوگیا۔ پولس کے کانسٹیبلوں اور تحصیل کے چپراسیوں نے میرا مذاق بنالیا۔ تحصیلدار صاحب کے ایک چپراسی کی یہ سب شرارت تھی۔ یہ آگ اسی کی لگائی ہوئی تھی۔ جب ماموں صاحب اور تحصیلدار صاحب دورے سے واپس ہوئے تو ہماری معصوم اور پاک محبت کی شکایت کی گئی۔ تحصیلدار صاحب نے بدنامی کے خیال سے کنول کا پاٹ شالہ جانا بند کردیا اور ماموں صاحب نےمجھے ایک دن تنہائی میں بلاکر تنبیہ کی ’’مجھے بہت افسوس ہے کہ تم اب آوارہ ہوتے جارہے ہو۔ بہن نے تم کو میرے پاس تعلیم کے لیے بھیجا ہے، تم کو اپنی عزت کا خیال نہیں تو خاندان کا نام تو بدنام نہ کرو۔ آئندہ اگر پھر میں نے تمہارے متعلق کوئی شکایت سنی تو اس کا نتیجہ اچھا نہ ہوگا۔‘‘ شرم و ندامت کے مارے میرا سر نیچا ہوگیا، میری آنکھوں سے آنسو بھر آئے۔ ماموں صاحب مجھے اپنی اولاد سے بڑھ کر سمجھتے تھے۔ ان کی تنبیہ نے میرے دل پر خاص اثر کیا۔ کچھ دنوں تک تو میں کنول کے مکان کے سامنے سے بھی نہ نکلا مگر پھر اس کی محبت نے زور مارا۔ پڑھنے لکھنے میں میرا دل نہ لگتا۔ میں پاگلوں کی طرح سے کنول کے مکان کا چکر کاٹنے لگا۔ میری اس بیوقوفی سے کنول کی بدنامی ہونے لگی۔ وہ یک دن خلاف توقع مجھ سے ملی اور کہنے لگی:
’’پریم! کیا اسی کا نام م حبت ہے۔ یہ محبت نہیں بو الہوسی ہے کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ان باتوں سے میں آپ کو مل جاؤں گی۔ نہیں ہرگز نہیں۔ آپ مرد ہیں آپ کا تو کچھ نہ بگڑے گا لیکن میں برباد ہوجاؤں گی، سماج میں منھ دکھانے کے قابل نہ رہوں گی۔ آپ بخوبی جانتے ہیں کہ میرا باپ کٹر برہمن ہے، وہ اپنی برادری کے علاوہ اور کسی جگہ میرا رشتہ ہرگز پسند نہ کرے گا۔ ایسی حالت میں بہتر یہی ہوگا کہ آپ مجھے بھول جائیے، سمجھ لیجیے کہ کنول اس دنیا میں موجود ہی نہیں۔ ہمارے درمیان سماج کی دیوار کھڑی ہے اس کو توڑنے کی ممکن ہے آپ میں ہمت ہو۔ لیکن میں اپنے ماتا پتا کو دکھ پہنچانا نہیں چاہتی۔ میں گھٹ گھٹ کر مرجانا پسند کروں گی لیکن اپنے پریم کو دباؤں گی۔ ایں آپ روتے کیوں ہیں کیا مردوں کو رورنا زیب دیتا ہے۔ نہیں یہ تو عورتوں کا کام ہے دل کو مضبوط کیجیے اگر آپ کو میری سچی محبت ہے تو کوئی ایسی حرکت نہ کیجیے جس سے جگ ہنسائی ہو۔ اب میں آپ سے نہ مل سکوں گی۔ مجھ سے خط و کتابت کرنے کی بھی کوشش نہ کیجیے ورنہ مجھے سخت قلق ہوگا۔ میں اب جاتی ہوں۔ میرا کہا سُنا معاف کیجیے گا ہاں جانے سے پہلے میں آپ کو یقین دلائے جاتی ہوں کہ گو میں آپ سے نہ مل سکوں مگر میں آپ کی ہوں اور جیتے جی آپ ہی کی رہوں گی۔ عورت صرف ایک ہی مرتبہ محبت کرتی ہے اور اسی محبت پر قربان ہوجاتی ہے۔ اس محبت کی لاج رکھیے گا۔ میری عزت اب آپ کے ہاتھ میں ہے۔ پریم پیارے پرنام!‘‘ کنول چلی گئی اور میں اپنی قسمت کو رونے کے لیے اپنے گھر چلا آیا۔
کچھ عرصہ کے بعد ماموں صاحب کا تبادلہ علی گڑھ اور تحصیلدار صاحب کا تبادلہ متھرا ہوگیا۔ چلتے وقت میں نے کنول سے ملنے کی بہت کوشش کی لیکن اس میں مجھے کامیابی نہ ہوئی۔ علی گڑھ پہنچ کر بھی بہت دنوں تک کنول کی یاد نے مجھے بے قرار رکھا۔ لیکن رفتہ رفتہ کچھ تو تعلیم کی مصروفیت اور کچھ نئے دوستوں کے میل ملاقات سے سکونِ قلب حاصل ہوگیا۔ انٹرنس پاس کرنے کے بعد علی گڑھ کالج میں داخل ہوگیا۔ لیکن ایف اے کا دوسرا سال ختم ہونے بھی نہ پایا تھا کہ میری تعلیم کا سلسلہ منقطع ہوگیا۔ کچھ عرصہ تک بےکار رہنے کے بعد سہارنپور کے ایک سرکاری دفتر میں مجھے کلرکی کی جگہ مل گئی۔ غلام ہوکر بھی میں نے سمجھا کہ مجھے آزادی مل گئی۔ جنگِ عظیم کا زمانہ تھا۔ دفتروں میں رشوت کا بازار گرم تھا۔ میں بھی ’’دستِ غیب‘‘ کا مرید بن گیا۔ جوانی کا عالم بے فکری کے دن تھے۔ میں اب خود مختار تھا۔ ماموں صاحب یا کسی کا ڈر نہ تھا۔ میرے لیے دن عید اور رات شب برات ہوگئی۔ مالِ مفت دلِ بے رحم۔ جو کچھ کماتا وہ فضول خرچی کے نذر ہوجاتا۔ خوشامدی دوستوں نے مجھے اپنا بھلا بُرا سمجھنے کا موقع ہی نہ دیا۔ یہاں تک کہ عیش و عشرت میں پڑکر میں اپنی کنول کو بھی بھول گیا۔ اسی طرح کئی سال گزر گئے۔ میرے ملنے والوں میں پنڈت رگھناتھ پانڈے ذرا سمجھ دار واقع ہوئے تھے۔ مذہب کے بڑے پابند ہوتے ہوئے بھی وہ مجھ ایسے آزاد خیال انسان پر مہر بان تھے۔ وہ میری طرح فضول خرچ نہ تھے۔ چنانچہ وہ اکثر میری فضول خرچی پر مجھے سمجھایا بھی کرتے لیکن میں ان کا مذاق اڑاتا۔ بدقسمتی سے وہ چیچک روپستہ قد اور ابھری توند والے پنڈت تھے۔ جب وہ مجھے سمجھاتے تو میں اس کا بدلہ ان کی توند سے لیتا، وہ غصہ میں جب مجھے مارنے دوڑتے تو میں بھاگ نکلتا۔ پنڈت جی کی شادی ہوچکی تھی لیکن میری طرح وہ بھی سہارنپور میں تنہائی کی زندگی گذار رہے تھے۔ ایک دن میں ان کے یہاں پہنچا تو پنڈت جی کو بہت اداس دیکھا، وجہ دریافت کی تو پہلے تو بتانے سے انکار کیا لیکن جب میں نے ان کو بہت دق کیا تو مجبوراً کہنے لگے۔ ’’بابوجی کیا بتاؤں۔ کلجگ ہے، جو نہ ہوجائے تو تھوڑا ہے ہندودیویاں تعلیم پاکر اب قابو سے باہر ہوئی جارہی ہیں۔ ہمارے ایک رشتہ دار نے جو تحصیلدار ہیں اپنی ایک تعلیم یافتہ قبول صورت لڑکی کی شادی سیتاپور کے ایک وکیل صاحب کے ساتھ کردی۔ وکیل صاحب کی دوسری شادی تھی۔ پہلی بیوی مر چکی تھی۔ پینتالیس سال کی عمر میں یہ دوسری شادی تھی۔ میں نے کہا واہ پنڈت جی لڑکیوں کو تو بدنام کر رہے ہو لیکن کیا یہ مردوں کا ظلم نہیں ہے جو وہ بے جوڑ کی شادیا ں کرتے ہیں۔ ہمارے انہی کرموں سے تو بھارت کاناش ہو رہا ہے۔‘‘
پنڈت جی نے بگڑکر کہا۔ ’’سارا معاملہ تو سنا نہیں بیچ ہی میں بول اٹھے اسی واسطے تو میں آپ سے کچھ کہنا پسند نہیں کرتا۔‘‘
پنڈت جی سے معافی مانگی خوشامدیں کیں تو پھر وہ آگے بڑھے۔ ’’یہ آپ کا خیال ہی خیال ہے چالیس پینتالیس سال کی عمر کچھ زیادہ نہیں ہوتی وکیل صاحب بہت نیک شریف النفس اور اچھی صحت والے تھے۔ جب تحصیلدار صاحب کی لڑکی سسرال میں پہنچی تو اس نے قیامت بپاکردی۔ جب رات کو وہ تنہائی میں وکیل صاحب سے ملی تو مجھے ایک معتبر ذریعہ سے معلوم ہوا ہے کہ اس نے وکیل صاحب کو ایک خط دیا۔ جس میں لکھا تھا ’’دنیا کی نگاہوں میں آپ میرے دیوتا ہیں لیکن افسوس ہے کہ میں آپ کے لائق نہیں ہوں۔ یہ شادی زبردستی کی گئی ہے۔ میں بالے پن ہی میں کسی اور کو اپنا پتی بناچکی ہوں۔ میں آپ کو دھوکا نہیں دینا چاہتی۔ آپ مجھے جو جی چاہے اس کی سزا دیجیے میں اس کے لیے تیار ہوں مگر آپ مجھے ہاتھ نہ لگائیے۔ میں اس کے ساتھ ہی آپ کو یقین دلانا چاہتی ہوں کہ میں پاک ہوں، میرا دامن عصمت گناہ سے آلودہ نہیں ہوا۔‘‘ وکیل صاحب نے یہ خط پڑھا تو انہیں چکر آگیا، وہ لڑکی سے صرف اتنا کہہ کر ’’اس میں تمہاری کوئی خطا نہیں‘‘ حجلۂ عروسی سے فوراً نکل گئے اور جب تک زندہ رہے وہ اس لڑکی سے نہ ملے۔
سسرال میں چند دن رہ کر لڑکی اپنے میکے چلی گئی۔ کسی کو اصلیت کا پتہ ہی نہ چل سکا۔ لیکن دل کی آگ نے وکیل صاحب کو اندر ہی اندر جلادیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ بہت جلد اس دنیا سے چل بسے۔ کسی نے سمجھا ان کو تپ دق ہوئی کسی کا خیال ہے کہ دل کی حرکت بند ہوگئی۔ لیکن میں کہہ سکتا ہوں کہ اس شادی نے ان کی جان لی۔ ان کے مرنے کے بعد بھی اصلیت پر پردہ پڑا رہتا۔ لیکن اتفاق سے وکیل صاحب کی خودنوشت ڈائری میرے ہم زلف کو مل گئی جس سے حقیقت معلوم ہوگئی۔ آج مجھے اپنے ہم زلف کا خط ملا۔ اس میں سب حال لکھا ہے۔ پنڈت جی اتنا کہہ کر کچھ دیر خاموش رہے۔ پھر ٹھنڈی سانس بھر کر بولے ’’اجی وہ تو وکیل صاحب ہی ایسے سیدھے سادے بزرگ تھے جو خاموش رہ گئے۔ وہ لڑکی میرے پلے پڑتی تو مار مار کر اس کا بھرکس نکال دیتا۔ اس کی ساری آزاد خیالی کو خاک میں ملادیتا۔‘‘ میری زبان سے نکل گیا ’’پنڈت جی، عورتوں پر ہاتھ اٹھانا آپ ہی ایسے بہادر مردوں کو زیب دیتا ہے۔‘‘ پنڈت جی نے کھسیاکر کہا۔ تو کیا ایسی عورت کی میں جوتیاں چاٹتا جس نے خاندان بھر کی ناک کٹواڈالی۔ ایسی ننگِ خاندان عورت کو ضرور سزا ملنی چاہیے۔‘‘ میں نے پنڈت جی کو چھیڑنے کی غرض سے کہا ’’لیکن میرے خیال سے تو اس خاندان کو سزا ملنی چاہیے جس نے ایک تعلیم یافتہ قبول صورت اور جوان لڑکی کی شادی ایک بڈھے مرد سے کی۔ سزا ملنی چاہیے اس سماج کو جس نے اس شادی کے خلاف صدائے احتجاج بلند نہ کی، بلکہ الٹا اب لڑکی کو قابل ملامت خیال کیا۔ میری رائے میں تو اس لڑکی نے سچی بات کہہ کر صرف اپنی ہی نہیں بلکہ وکیل صاحب اور اپنے کل خاندان کی عزت رکھ لی۔ جب وہ پہلے ہی سے کسی کو اپنا پتی بناچکی تھی تو پھر کس طرح سے کسی دوسرے مرد کی بیوی بن جاتی۔ اسکی یہ اخلاقی جرأت قابل تعریف ہے اس پر شاید آپ یہ اعراض کریں کہ یہ اسکا ذاتی فعل تھا اپنے والدین سے اس نے پہلے اجامت کیوں نہ لی تو میں یہ کہوں گا کہ جب بڈھے سے شادی کرتے وقت والدین نے اس سے دریافت نہ کیا تو لڑکی ان سے کیوں پوچھتی۔ شادی اس کی تھی نہ کہ اس کے والدین کی۔ آیا خیال شریف میں؟‘‘
پنڈت جی مجھ سے کھری کھری باتیں سن کر بہت بگڑے، کہنے لگے ’’آپ ہی ایسے ناستکوں نے تو بھارت کا ناش کردیا۔ آپ کا یہ مطلب ہے کہ یورپین لیڈیوں کی طرح ہماری دیویاں بھی آزاد ہوجائیں۔‘‘ میں نے جواب دیا ’’آپ کا خیال ہے میرا یہ ہرگز منشا نہیں ہے۔ بلکہ میں یورپ کی کورانہ تقلید کا مخالف ہوں میں تو بس یہ چاہتا ہوں کہ شادی کے معاملہ میں لڑکی کی مرضی بھی معلوم کرنی چاہیے۔ آپ کو برہمن خاندان میں ہونے کا فخر ہے۔ شاستر پڑھا ہی ہوگا۔ کیا پراچین بھارت میں سوئمبر کی رسم جاری نہ تھی۔ پھر آج ایک لڑکی نے اخلاقی جرأت سے کام لیا تو آپ کیوں بگڑ رہے ہیں۔ اگر آپ ایسے کٹر برہمن لڑکی کی مرضی معلوم کرنا مناسب نہیں سمجھتے تو پرماتما کے لیے بے جوڑ کی شادیوں کے خلاف آواز بلند کیجیے۔‘‘ جب پنڈت کی دکھتی رگ کو میں نے چھیڑا تو کہنے لگے ’’خیر جو ہونا تھا وہ تو ہو ہی چکا اب وہ لڑکی ہزار کہے کہ وہ پتی والی ہے۔ کوئی ماننے کے لیے تیار نہ ہوگا۔ دنیا اس کو بیوہ ہی کہے گی اور شاید آپ کو معلوم ہی ہوگا کہ ہمارے یہاں ودھوا بواہ کا رواج نہیں ہے۔ بیوہ کی شادی ہونا ناممکن ہے۔ ایسی حالت میں اب آپ ہی بتائیے کہ یہ جو گڑبڑی ہوئی ہے اس کا ذمہ دار اس لڑکی کے سوا اور کون ہوسکتا ہے۔‘‘ میں نے کہا ’’اس کے ذمہ دار آپ ہیں، آگے بڑھیے ہمت سے کام لیجے، آپ اصلی حال سے واقف ہیں۔ برادری سے کہہ دیجیے اور لڑکی کو اس کے اصلی پتی کے پاس پہنچادیجیے۔‘‘ پنڈت جی نے کہا ’’اجی یہ میرے بس کا کام نہیں ہے، اگر ہماری برادری کو اتنا ہی پتہ چل جائے کہ لڑکی نے کسی مرد سے ملاقات کی ہے تو وہ لڑکی کے تمام اعزا و اقارب کو برادری سے نکال دیں۔ اصلیت تو صرف چند ہی لوگوں کو معلوم ہے اور ہم خاندان کی عزت کے خیال سے اس کو چھپائے ہوئے ہیں۔ اور ہاں یہ تو بتائیے کہ اگر میں نے کچھ ہمت بھی کی اور پتی کو تلاش کرنے کے بعد معلوم ہوا کہ وہ مرد برہمن ہونے کے بجائے چھتری ویش یا کسی اور فرقہ کا ہے تو کیا کیا جائے گا۔‘‘
رات کافی ہوچکی تھی پنڈت جی سے کہاں تک بحث کرتا میں اتنا کہہ کر گھر چلا آیا ’’لڑکی کو اس کے حوالے کردیجیے گا یا سرپکڑ کر روئیے گا۔‘‘
کئی ہفتے گزر گئے پھر پنڈت جی سے ملاقات نہ ہوسکی۔ ایک دن شام کو دفتر سے گھر آتےہوئے میں تحصیل کی طرف نکل گیا۔ شباب کا زمانہ اور بے فکری کے دن تھے۔ یہی وہ عالم ہوتا ہے جس میں جوانوں کی نظریں زمین کے بجائے آسمان کی طرف رہتی ہیں۔ میں سائیکل پر سوار تھا۔ لیکن میری نظر خواہ مخواہ تحصیل کے بالا خانہ کی طرف اٹھ گئی۔ تحصیلدار صاحب کا مکان تحصیل کے اندر ہی تھا۔ اوپر کھڑکی پر چلمن پڑی تھی۔ اسی چلمن پر میری نظریں گڑ گئیں۔ جو خوشی جو مسرت کھوئی ہوئی چیز کے مل جانے سے کسی کو ہوسکتی ہے وہی حالت میری ہوئی۔ ایک نہ دو پورے آٹھ سال کے بعد میں یہ دیکھ کر ششدر رہ گیا کہ اس کھڑکی پر سفید ساری پہنے لڑکپن کی ساتھی میری کنول کھڑی تھی۔ نظر کا ملنا تھا کہ اس نے ہاتھ جوڑ کر مجھے پرنام کیا۔ خوشی اور حیرت کی باہمی کشمکش سے قریب تھا کہ میری سائیکل کسی رہ گیر سے ٹکراجاتی۔ میں گھبراکر سائیکل سے اتر پڑا یہ صرف ایک لمحہ کی بات تھی، ہٹی ہوئی چلمن اب اپنی جگہ پر تھی اور وہ چاند سا مکھڑا اس کی اوٹ میں۔ باہر سے صرف اس کی جھلک یا سایہ دکھائی دے رہا تھا۔ یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ کنول کو بالکل بھول گیا تھا۔ مگر اس میں شک نہیں کہ اب اس کی یاد بہت کم آتی تھی۔ لیکن آج آٹھ سال کے بعد اس کودیکھ کر میری اولین محبت کی دبی ہوئی چنگاری بھڑک اٹھی۔ لڑکپن کا دماغ اس وقت کی نظریں ہی کچھ اور ہوتی ہیں اس وقت کی باتی مرتے دم تک نہیں بھولتیں۔ آج میں نے اپنے دل کی ملکہ کو دیکھا تو سب گئی گزری باتیں یاد آگئیں۔ عہد و پیمان کا خیال آیا، بالے پن میں وہ ایک ناشگفتہ کلی تھی لیکن اب اس نے پھول کی شکل اختیار کرلی تھی۔ مگر ایک ہی جھلک میں مجھے یہ اندازہ کرنے میں دیر نہ لگی کہ دوپہر کا کھلا ہوا پھول ہے۔ جس کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ کیا برہمن خاندان کی ایک جوان عورت سفید ساری پہنے گی، نہیں یہ تو بیوگی کانشان ہے، تو کیا میری کنول کی شادی بھی ہوئی اور وہ بیوہ ۔۔۔ اس میں یہ سوچنے کی ہمت نہ کرسکا میں سڑک کے کنارے حیران کھڑا تھا کہ میرے دوست پنڈت جی تحصیل سے لپکے ہوئے نکلے اور مجھے حیران دیکھ کر کہنے لگے ’’کہیے بابوجی! خیریت تو ہے اس وقت آپ ادھر کیسے آنکلے۔‘‘ مجھے اس وقت پنڈت جی کا ملنا بہت برا معلوم ہوا۔ لیکن ان سے پیچھا چھڑانا کوئی آسان کام نہ تھا۔ مجبوراً باتیں کرتا ہوا ان کے گھر تک چلا گیا۔ مجھے خود حیرت تھی کہ پنڈت جی کا تحصیل میں کیا کام ہوسکتا ہے۔
دریافت کرنے سے معلوم ہوا کہ وہی تحصیلدار صاحب ہیں جن کی لڑکی کا واقعہ انہوں نے مجھے سنایا تھا۔ یہ معلوم کرکے میں پنڈت جی کے یہاں سے جلدی رخصت ہوکر اپنے گھر پہنچا۔ اب میں سب کچھ سمجھ گیا۔ کنول سفید ساری کیوں پہنے تھی یہ بھی معلوم ہوگیا۔ لیکن میں نے پنڈت جی کو کبھی پتہ نہ چلنے دیا کہ میں تحصیل دار صاحب اور ان کی لڑکی سے آج سے نہیں بلکہ آٹھ سال پہلے سے واقف ہوں۔ گھر پہنچ کر میں نے اپنے نوکر کو بھی گھر سے نکال کر اندر سے دروازہ بند کرلیا۔ نہ تو سیر کرنے کو گیا اور نہ یارانِ طریقت سےملا۔ بغیر کچھ کھائے پیے پلنگ پر پڑا رہا۔ ساری رات کروٹیں بدلتے ہی گزر گئی۔ میرا ضمیر مجھے ملامت کر رہا تھا تو کنول کو بھول کر عیش و عشرت میں پڑا تھا۔ لیکن شرافت کی دیوی محبت کی پتلی کنول نے تیرے لیے اپنی زندگی تباہ کردی۔ تیری وجہ سے وہ خاندان بھر میں بدنام ہوئی لیکن تو اس سے غافل رہا۔ تو نے اس کی خبر تک نہ لی اس پر بھی کنول تجھے اپنا شوہر سمجھتی ہے۔ دنیا کی نگاہوں میں وہ بیوہ ہے لیکن پرماتما کے دربار میں وہ اب بھی سہاگن ہے۔ اب بھی وقت ہے اگر تجھ میں ہمت ہے تو کنول کا ہاتھ تھام لے۔ ضمیر کی آواز میں نے سنی لیکن سماج کے دیو نے مجھے ڈرایا ’’خبردار! تو کنول کو نہیں پاسکتا۔ مذہب کی دیوار درمیان میں کھڑی ہے۔ اس کا توڑناآسان کام نہیں ہے۔ کنول بیوہ ہے اور وہ بیوہ رہے گی۔ تحصیلدار صاحب ایسے عالی خاندان برہمن ودھوا بیاہ کے لیے ہرگز تیار نہ ہوں گے۔‘
میری ساری رات اسی ادھیڑ بُن میں گزر گئی اور میں کچھ فیصلہ نہ کرسکا۔
دوستوں سے ملنا جلنا چھوٹ گیا۔ دفتر کے کام میں بھی مجھ سے غفلت ہونے لگی۔ اب تو میری نگاہوں میں کنول ہی کا جلوہ تھا۔ اب تو نہ مجھے دنیا کی پرواہ تھی نہ سماج کا ڈر۔ طوافِ کوئے یار ہی سے میرے دل کو کچھ تسکین ہوتی تھی۔ اصل معنی میں کنول میری بیوی تھی میں اس کو حاصل کرنے کے لیے کسی سے کیوں ڈرتا لیکن میری اس وحشت کا یہ نتیجہ ہوا کہ میں بدنام ہوگیا۔ تحصیلدار صاحب تک میری شکایت پہنچی، وہ حاکم تھے ان کے ہاتھ میں حکومت کی باگ تھی۔ وہ میرے خون کے پیاسے ہوگئے لیکن میں اپنی دھن میں اس سے بے خبر تھا۔ ایک دن حسبِ معمول جب میں شام کو ان کے مکان کے نیچے سے گزرا تو کنول نے خلاف توقع ایک پرزہ پھینکا میں نے گھر جاکر پڑھا۔ لکھا تھا:
’’پریم! ہاتھ جوڑتی ہوں اس طرف کا آنا چھوڑ دیجیے۔ آپ کی جان خطرہ میں ہے۔ میں تو آپ کو آج سے نہیں بلکہ بالے پن سے ہی اپنا سرتاج بناچکی ہوں اور جیتے جی اپنے دل کے مندر میں آپ کو اپنا دیوتا سمجھ کر پوجتی رہوں گی۔ لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ اپنے بوڑھے پتا کو رنج پہنچاؤں۔ شاید آپ کو معلوم نہ ہوگا میری ماتا جی سرگباش ہوگئیں۔ سوتیلے بھائیوں اور بھاوجوں کے طعنے سُنے نہیں جاتے۔ پھر بھی میں کسی ایسی بات کا موقع نہیں دینا چاہتی جس سے جگ ہنسائی ہو۔ آپ کی کوچہ گردی سے کچھ فائدہ نہ ہوگا۔ اس میں میری اور آپ کی بدنامی ہے۔ آپ شاد رہیں آباد رہیں۔ بس یہی میری دعا ہے۔ شرافت کو ہاتھ سے نہ جانے دیجیے۔ دشمنوں نے پتاجی کو آپ کے خلاف کردیا اس کی سزا مجھے یہ دی گئی ہے کہ پتاجی مجھے کل یہاں سے میرے سسرال سیتاپور بھیج رہے ہیں۔ سسرال کے لفظ پر چونکنے کی ضرورت نہیں جی ہاں میری شادی ہوئی۔ لیکن میرا پرماتما گواہ ہے کہ اس زبردستی کی شادی نے مجھے میرے پریتم سے جدا نہیں کیا، میں آپ کو کبھی نہیں بھولی۔ لڑکپن میں آپ سے جو وعدہ کیا تھا اس پر اب تک قایم ہوں اور امید ہے کہ مرتے دم تک قایم رہوں گی۔ جن سے میری زبردستی شادی کی گئی تھی وہ اب اس دنیا میں موجود نہیں ہیں۔ اس لحاظ سے میں دنیا کی نگاہوں میں بیوہ ہوں لیکن میرے سرتاج کو پرماتما میرے سر پر قایم رکھے میں خود کو سہاگن سمجھتی رہوں گی۔ اگر سماج نے ہمیں اس دنیا میں ملنے کا موقع نہیں دیا تو ہم دوسری دنیا میں ضرور ملیں گے۔ سیتاپور پہنچ کر اگر مجھے موقع ملا تو میں ضرور خط لکھوں گی ورنہ مجھے معاف کیجیے گا۔ لیکن آپ کو میری جان کی قسم بغیر میری اجازت نہ تو سیتاپور آنے کی کوشش کیجیے گا اور نہ میری پاس خط بھیجیے گا۔ خط کا پہنچنا ناممکن ہے۔ میری عزت آپ کے ہاتھ میں ہے۔ آپ کی جانب سے کوئی ایسی بات نہ ہونی چاہیے جس سے ہماری بدنامی ہو۔ آرام سے اپنے گھر پر رہیے۔ بیکار اِدھر ادھر پھرنے کی ضرورت نہیں۔ پرماتما ہم دونوں کے دلوں کو شانتی دے۔ پرنام۔
آپ کی داسی کنول
خط پڑھ کر بہت ضبط کرنے پر بھی میرے آنکھوں میں آنسو آگئے مگر رونا بیکار تھا۔ کنول دوسروں کے بس میں تھی میں کر ہی کیا سکتا تھا۔ تحصیلدار صاحب نے تار کے ذریعہ سے کنول کے دیور کو سیتاپور سے بلایا اور کنول کو ان کے ہمراہ سیتاپور روانہ کردی۔ کنول نے مجھے ممانعت کی تھی پھر بھی میں نے کچھ خیال نہ کیا اور جس ٹرین میں وہ جارہی تھی اس میں چھپ کر بیٹھ گیا۔ کنول کے دیور نے مجھے کبھی دیکھا نہ تھا وہ مجھ پر کسی قسم کا شک بھی نہ کرسکے۔ وہ مردانے میں اور کنول زنانے ڈبے میں تھی۔ راستہ میں کنول سے مجھ کو تھوڑی دیر باتیں کرنے کا موقع مل گیا۔ میں نے اسے لاکھ کہا کہ موقعہ اچھا ہے وہ اب میرے ساتھ کسی ایسے مقام کو چلے جہاں کسی کو ہمارا پتہ ہی نہ چل سکے اور اگر پتہ بھی چلاتو کوئی کچھ نہیں کرسکتا۔ کنول بالغ تھی یہ کوئی جرم نہ ہوگا۔ لیکن میرا کہنا بیکار گیا۔ کنول نے صاف انکار کردیا۔ اس نے بھاگنا ناپسند کیا۔ کنول کی تیوری چڑھی دیکھ کر پھر میں اس سے زیادہ اصرار نہ کرسکا۔ میں اس کی طبیعت سے واقف تھا۔ میں سیتا پور تک گیا اور کنول کو اس کی سسرال تک پہنچاکر سہارنپور واپس آگیا۔
کئی مہینے گزر گئے لیکن کنول کا مجھے کوئی خط نہ مل سکا۔ میری طبیعت بہت پریشان رہتی تھی۔ دفتر کے ایک خزانچی نے مجھ سے ہمدردی ظاہر کی میں نے اس کو اپنا ہم راز بنالیا لیکن وہ میرے حق میں مارِ آستین ثابت ہوا۔ بظاہر تو وہ مجھ سے ملا رہا لیکن باطن میں اس نے مجھ سے دشمنی کی اس نے میرے دوست پنڈت جی کو میرا حال بتادیا اور وہ بھی میرے دشمن ہوگئے۔ اب مجھے اپنی جان کا ہر وقت خطرہ رہنے لگا۔ کئی مرتبہ مجھ پر حملہ کرنے کی کوشش بھی کی گئی لیکن پرماتما نے مجھے بچالیا۔ دفتر کے آفیسروں کو بھی میرے دشمنوں نے ورغلادیا جس سے میری جان بڑی مصیبت میں رہنے لگی۔ میں اپنی زندگی سے تنگ تھا کہ ایک دن خلاف امید مجھے کنول کا بیرنگ خط مل گیا۔ کانپتے ہاتھوں سے میں نے لفافہ چاک کیا، اس میں لکھا تھا:
’’سوامی! میارے ہردیشور! میری رکھشا کرو۔ میری عزت خطرے میں ہے، میرے سوتیلے بھائیوں نے میرے خلاف سسرال والوں سے بھی شکایت کردی تھی، جس سے یہاں کے سب لوگ میرے دشمن ہوگئے۔ سب نے مل کر مجھے روحانی اور جسمانی تکلیف بھی پہنچائی۔ گالیوں اور طعنوں سے ناک میں دم کیا پھر بھی میں نے کوئی پروا نہ کی میں نے یہ سب مصیبتیں خندہ پیشانی سے برداشت کیں۔ ا ن کی سختیوں پر کبھی اف بھی نہ کی۔ مگر پریتم! اب میں کیا کروں اب تو میری عزت اور عصمت کا سوال ہے۔ وہ عزت اور عصمت جو عورتوں کا زیور ہے۔ جس کے لیے میں نے آرام، چین اور اپنی خوشیوں کو بھی قربان کردیا۔ مگر ظالم اب میری عزت اور عصمت پر حملہ کرنا چاہتے ہیں۔ میرے دیور کی نیت خراب ہوگئی ہے اس کے ڈر سے مجھے ساری رات جاگتے گزر جاتی ہے۔ ایک ہی گھر میں رہ کر کب تک اس دشٹ کے ہاتھ سے بچوں گی یہ پرماتما ہی جانے۔ لیکن میں اپنی عصمت کی حفاظت میں اپنی جان دے دوں گی۔ کسی کی مجال نہیں کہ مجھ پر ہاتھ اٹھائے۔ افسوس تو مجھے اپنے خاندان پر ہے جن کی عزت کے خیال سے میں آپ سے جدا رہی ان کو میری عزت کا کوئی خیال نہیں۔ وہ تو مجھے مردہ سمجھ چکے ہیں، وہ مجھ سے اب کوئی واسطہ رکھنا نہیں چاہتے۔ شرم کی بات ہے کیسے لکھوں کہ میری دیورانی، نند اور جٹھانی کو بھی میرے دیور کی نیت کا پتہ چل گیا ہے مگر وہ اسے منع نہیں کرتیں۔ ایسی حالت میں آپ خود سمجھ سکتے ہیں کہ میری عزت خطرہ میں ہے۔ اعزہ و اقارب کو پروا نہیں۔ سسرال والوں کا یہ حال ہے۔ یہ ہے ہماری سماج۔ میں نے اب تک سماج کا خیال رکھا۔ میری جانب سے کوئی ایسی بات نہ ہوئی جس سے کسی کو شکایت کا موقع نہ ملے یا سماج کی بدنامی ہو مگر وہی سماج میری عزت کی طلب گار ہے۔ میں نے اپنی عزت کو خطرہ میں دیکھ کر اب مجبوراً فیصلہ کرلیا ہے کہ جب سماج ہی کو میرا خیال نہیں تو میں اس کی کیوں پروا کروں۔
میرے لیے صرف دو راہیں ہیں یا تو اپنی عصمت کو سماج پر قربان کردوں یا سماج کو چھوڑدوں۔عصمت کو میں کسی قیمت پر قربان کرنے کے لیے تیار نہیں ہوں۔ حرام موت مرنا نہیں چاہتی۔ بس اب میرے لیے ایک ہی راہ رہ گئی ہے کہ میں سماج کو چھوڑدوں۔ ہاں اب مجبوراً اس کے لیے تیار ہوں میں سماج کی ستائی ہوئی ہوں۔ آؤ میرے پریتم آؤ۔ کیا آپ مجھ ابلا کو اپنی چرن میں لینے کے لیے تیار ہیں۔ میں جو کبھی اپنے گھر کو سماج کو خاندان کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں تھی۔ جس نے آپ کا بھی کہنا نہ مانا وہی آج خاندان کی لاپرواہی، سماج کے ظلم سے تنگ آکر اپنی عصمت کو خطرہ میں دیکھ کر خودبخود آپ کی چرن میں آنا چاہتی ہے۔ دیکھیے کیںھ سماج سے نہ ڈر جائیے گا۔ میں دنیا کی نگاہوں میں بیوہ ہوں آپ کی برادری میں نہیں ہوں۔ میری وجہ سے آپ بھی سماج کے ظلم و ستم کا نشانہ بنیں گے۔ آپ کی برادری آپ کو لعنت ملامت کرے گی۔ آپ سے قطع تعلق کرلے گی۔ ان سب باتوں کو پہلے سوچ لیجیے گا۔ اگر آپ مجھ بیکس کے لیے جو صرف آپ ہی کے نام کی مالا جب کر اب تک زندہ ہے۔ مصیبت اٹھانے کے لیے تیار ہیں تو خط دیکھتے ہی فوراً تشریف لائیے۔ ورنہ آپ مجھے زندہ نہ پائیں گے۔ میرے بدمعاش دیور نے مجھے صرف ایک ہفتہ کی مہلت دی ہے۔ اگر آپ نے میری خبر نہ لی اور میں نے پاپی دیور کا کہنا نہ مانا تو رام جانے اس کا کتنا بھیانک انجام ہوگا۔
آپ کے چرنوں کی داسی کنول
میں سیتاپور کیسے پہنچا اور پھر وہاں سے اپنی کنول کو کیسے لایا۔ اس کے لکھنے کی کوئی ضرورت نہیں جس محبت کا آغاز گڑیا گڈے کی شادی سے ہوا تھا اس کا انجام بخیر ہوا یہ ضرور ہے کہ اس کے بدلے میں مجھے سماج نے کافی سزا دی ملازمت سے بھی ہاتھ دھونا پڑا۔ لیکن کچھ دنوں کے بعد کنول کے اقبال سے مجھے پہلے سے بھی بہتر ملازمت مل گئی۔ کنول کی وجہ سے مجھے میری برادری نے باہر کردیا۔ میرے خاندان کی کوئی عورت میری کنول کے ساتھ کھانا بھی پسند نہیں کرتی، وہان کی نگاہوں میں ’’باہر کی عورت‘‘ ہے۔ ایک عالی نسب۔ معزز خاندان کی لڑکی ہوکر بھی میری برادری کے خیال سے وہ اچھوت ہے۔ لیکن ان کوتاہ بینوں کو کیا معلوم کہ میری نگاہوں میں تو کنول ایک آسمانی دیوی ہے۔ مجھے فخر ہے کہ پرماتما نے مجھ پاپی میں نہ جانے کیا خوبی دیکھی جو ایسی پاک دامن جاں نثار دیوی کا مجھے شوہر بنایا۔ ایسی دیوی جس نے میری زندگی بنادی۔ تمام دنیا مجھے چھوڑ دے، دنیا کی ساری خوشیاں خاک میں مل جائے، مفلسی چاروں طرف سے مجھے گھیرلے۔ مصیبت کا طوفان مجھ پر ٹوٹ پڑے لیکن پرماتما مجھے میری عصمت کی دیوی، فرماں بردار بیوی کنول سے مرتے دم تک نہ جدا کرے۔ یہی میری دعا ہے اور یہی ارمان ہے۔
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |