کنایہ اور ڈھب کا اس مری مجلس میں کم کیجے
Appearance
کنایہ اور ڈھب کا اس مری مجلس میں کم کیجے
اجی سب تاڑ جاویں گے نہ ایسا تو ستم کیجے
تمہارے واسطے صحرا نشیں ہوں ایک مدت سے
بسان آہوۓ وحشی نہ مجھ سے آپ رم کیجے
مہاراجوں کے راجہ اے جنوں ڈنڈوت ہے تم کو
یہی اب دل میں آتا ہے کوئی پوتھی رقم کیجے
گلے میں ڈال کر زنار قشقہ کھینچ ماتھے پر
برہمن بنئے اور طوف در بیت الصنم کیجے
کہیں دل کی لگاوٹ کو جو یوں سوجھے کہ تک جا کر
قدیمی یار سے اپنے بھی خلطہ کوئی دم کیجیے
تو انگلی کاٹ دانتوں میں پھلا نتھنے رہاندی ہو
لگا کہنے بس اب میرے بڑھاپے پر کرم کیجے
پھڑکتا آج بھی ہم کو نہ پرسوں کی طرح رکھئے
خدا کے واسطے کچھ یاد وہ اگلی قسم کیجے
ملنگ آپس میں کہتے تھے کہ زاہد کچھ جو بولے تو
اشارا اس کو جھٹ سو نر انگشت شکم کیجے
کبھی خط بھی نہ لکھ پہنچا پڑھایا آپ کو کس نے
کہ القط دوستی انشاؔ سے ایسی یک قلم کیجیے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |