Jump to content

کمر کی بات سنتے ہیں یہ کچھ پائی نہیں جاتی

From Wikisource
کمر کی بات سنتے ہیں یہ کچھ پائی نہیں جاتی
by ناجی شاکر
311872کمر کی بات سنتے ہیں یہ کچھ پائی نہیں جاتیناجی شاکر

کمر کی بات سنتے ہیں یہ کچھ پائی نہیں جاتی
کہے ہیں بات ایسی خیال میں میرے نہیں آتی

جو چاہو سیر دریا وقف ہے مجھ چشم کی کشتی
ہر ایک موئے پلک میرا ہے گویا گھاٹ خیراتی

برنگ اس کے نہیں محبوب دل رونے کو عاشق کے
سعادت خاں ہے لڑکا وضع کر لیتا ہے برساتی

جو کوئی اصلی ہے ٹھنڈا گرم یاقوتی میں کیونکر ہو
نہ لاوے تاب تیرے لب کی جو نامرد ہے ذاتی

نہ دیکھا باغ میں نرگس نیں تجھ کوں شرم جانے سیں
اسی غم میں ہوئی ہے سرنگوں وہ وقت نہیں پاتی

کہاں ممکن ہے ناجیؔ سا کہ تقویٰ اور صلاح آوے
نگاہ مست خوباں وہ نہیں لیتا خراباتی


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.