کمر کی بات سنتے ہیں یہ کچھ پائی نہیں جاتی
Appearance
کمر کی بات سنتے ہیں یہ کچھ پائی نہیں جاتی
کہے ہیں بات ایسی خیال میں میرے نہیں آتی
جو چاہو سیر دریا وقف ہے مجھ چشم کی کشتی
ہر ایک موئے پلک میرا ہے گویا گھاٹ خیراتی
برنگ اس کے نہیں محبوب دل رونے کو عاشق کے
سعادت خاں ہے لڑکا وضع کر لیتا ہے برساتی
جو کوئی اصلی ہے ٹھنڈا گرم یاقوتی میں کیونکر ہو
نہ لاوے تاب تیرے لب کی جو نامرد ہے ذاتی
نہ دیکھا باغ میں نرگس نیں تجھ کوں شرم جانے سیں
اسی غم میں ہوئی ہے سرنگوں وہ وقت نہیں پاتی
کہاں ممکن ہے ناجیؔ سا کہ تقویٰ اور صلاح آوے
نگاہ مست خوباں وہ نہیں لیتا خراباتی
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |