Jump to content

کل کا گھوڑا

From Wikisource
کل کا گھوڑا
by مرزا فرحت اللہ بیگ
319556کل کا گھوڑامرزا فرحت اللہ بیگ

جناب ایڈیٹر صاحب رسالہ نمائشالسلام علیکم!آپ جانتے ہیں کہ آج کل کی نئی پود نے ملک کی بہبودی کے لئے ڈاکے کو جائز قرار دیا ہے۔ چنانچہ بنگالہ کی حالت اس کی کھلی ہوئی مثال ہے۔ اگر یہ اصول صحیح ہے تو میں بھی’’پنج کہیں بلی تو بلی ہی سہی‘‘ کے مقولے پر عمل کر کے اردو کی خاطر انگریزی ادب پر ڈاکہ ڈالتا ہوں۔ لیکن مال کی ہیئت تبدیل کرنے کے لئے بہت کچھ کتر بیونت کر دیتا ہوں تاکہ شناخت کی وجہ سے ڈاکے کا الزام عائد نہ ہو سکے۔ اگر چوری کا مال خریدنے اور نکاسی کرنے کی ہمت ہے تو بسم اللہ۔ نمائش میں کسی جگہ جما دیجئے ورنہ واپس فرمائیے۔ خدا کے فضل سے دنیا میں مال مسروقہ خریدنے والوں کا توڑا نہیں۔ مال کھرا ہے، میں کہیں اور دام کھرے کر لوں گا۔دیکھئے ایک راز کی بات بھی کہے دیتا ہوں۔ کسی سے کہیئے گا نہیں۔ اس مضمون کا کچھ خاکہ جون 1909 کے پیر یسنز میگزین سے اڑایا گیا ہے لیکن اضافہ واقعات اور طرز ادا نے دونوں مضمونوں میں زمین آسمان کا فرق پیدا کر دیا ہے۔ کوئی بے وقوف سے بے وقوف بھی نہ کہے گا کہ یہ مال فلاں مال کو گلا کر بنایا گیا ہے۔ پیرسنز میگزین بھی اس کے ساتھ بھیجتا ہوں۔ آپ مقابلہ کر کے اپنی عقل کا اندازہ لگا لیجئے۔ والسلامکم ترین مرزا الم نشرحموجد دنیا میں سیکڑوں ہیں اور ہوتے چلے آئے ہیں۔ مگر توبہ توبہ! خدا کسی کو میرے دوست مسٹر مور جیسا موجد نہ کرے۔ بندہ خدا کو دنیا سے کوئی واسطہ ہی نہ رہا تھا۔ جب دیکھو اپنے دارالتجربہ میں بیٹھے ہیں، جب جاؤ اس کو توڑا، اس کو جوڑ رہے ہیں۔ بیٹھے بیٹھے آندھ آجاتی تھی مگر وہ اللہ کا بندہ یہ بھی نہیں پوچھتا تھا کہ میاں خیریت سے تو ہو۔ ہزاروں ایجادوں سے دنیا کو مالا مال کر دیا لیکن یہ بھی نہ سمجھے کہ دنیا ہے کیا بلا اور دنیا میں ہو کیا رہا ہے۔ جنگ عظیم میں ان کی بیسیوں ایجادیں کام میں لائی گئیں لیکن ان کو یہ بھی خبر نہ ہوئی کہ جنگ کب چھڑی! کون جیتا کون ہارا۔ ایک دن میں نے باتوں باتوں میں ذکر کیا کہ اس لڑائی میں بیلجیم نے اپنی بساط سے بہت زیادہ ہمت دکھائی۔ پوچھنے لگے کہ یہ مسٹر بلیجیم کون صاحب ہیں اور کہاں رہتے ہیں۔ بھلا ایسوں کی صحبت سے کسی کا کیا دل بہل سکتا ہے۔میں تو ٹھہرا بیوپاری کہ پیسوں کے لیےمردہ کا کفن بھی اتروا لوں۔ اور مسٹر مور ٹھہرے ایسے بے پروا کہ اپنی کسی ایجاد کی رجسٹری تک نہ کروائی۔ میں نے کئی دفعہ کہا بھی تو یہی جواب ملا کہ ہر ایجاد عامہ خلائق کے فائدے کے لیے ہے۔ کسی شخص کا حق نہیں ہے اور نہ ٹکے پیدا کرنے کے لیے ہے۔ ایک دوربین ایجاد کی تھی۔ گھر کے باہر سے گھر کے اندر کا حال دکھاتی تھی لیکن میرے یار نے اس کی بھی رجسٹری نہ کرائی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ایک کار خانے نے اپنے نام سے اس کی رجسٹری کرا کے لاکھوں روپے کھرے کر لیے۔ جب میں نے مور سے اس کا ذکر کیا تو وہ یہ بھی نہ سمجھے کہ اس کارخانے پر ہرجہ کا دعویٰ ہو سکتا ہے۔ بہر حال مور کی ایجادات دریا کی لہریں تھیں کہ یکے بعد دیگرے پیدا ہوتی تھیں اور بغیر ان کو فائدہ پہنچائے ان کی حد تک فنا ہو جاتی تھیں۔ گو دوسرے ان سے پوری طرح متمتع ہوتے تھے۔اگر باپ دادا نے جائیداد نہ چھوڑی ہوتی تو میرے یا رکبھی کے محتاج خانے پہنچا دیے گئے ہوتے۔ ان کی ذات سے سب ہی کو فائدہ پہنچتا تھا۔ نہ پہنچتا تھا تو مجھ کو۔ کیونکہ مجھے خبر تک نہ ہوتی تھی کہ ان کی کوئی تازہ ایجاد کب مکمل ہوئی اور کب نصیب دشمناں ہو گئی۔ خود مور سے تو اس کی توقع رکھنی فضول تھی کہ وہ اس کا ذکر مجھ سے کرتے۔ اگر حال کھلتا تھا تو اخباروں سے اور’’اب پچھتائے کیا ہوت ہے جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔‘‘ کی مثل ہمیشہ مجھ پر صادق آتی تھی۔ اگر میری مالی حالت اچھی ہوتی تو میں پروا بھی نہ کرتا لیکن کاروبار کے مندے اور اکثر بیوپاریوں کی نا دہندی نے مجھ کو کھک کر دیا تھا۔ ایسی صورت میں آپ ہی انصاف کیجئے کہ اپنے سچے مگر حاجت مند دوست کےساتھ مور کی یہ بے التفاتی قابل شکایت ہے یا نہیں۔ایک دن میں پریشانی کی حالت میں دفتر سے سیدھا مور کے ہاں پہنچا۔ معلوم ہوا کہ وہ اپنے دارالتجربہ میں کچھ کام کر رہے ہیں۔ وہیں چلا گیا۔ اس روز ان کی طبیعت کچھ بشاش معلوم ہوتی تھی۔ میرے ہاتھ میں کتاب دیکھ کر پوچھنے لگے، ’’یہ کیا کتاب ہے۔‘‘ میں نے کہا دہلی کے ایک شاعر میر حسن نے ایک مثنوی اردو میں لکھی تھی اس کا انگریزی ترجمہ ہے۔ پوچھا کہ مضمون کیا ہے۔ میں نے کہا یوں ہی واہی تباہی بکا ہے۔ ایک کل کا گھوڑا بنایا ہے۔ اس پر سوار ہو کر شاہ زادہ آسمان پر ہوا خوری کو جایا کرتا تھا۔ غرض اسی طرح کی بے تکی باتیں ہیں۔ مجھ سے اتنا سنتے ہی مور کے چہرہ پر سرخی دوڑ گئی۔ آنکھیں چمکنے لگیں اور کہنے لگے، ’’ذرا مجھ کو کل کے گھوڑے والا حصہ سناؤ۔‘‘ میں نے کتاب میں سے وہ داستان نکالی اور پڑھنا شرو ع کیا۔ لیکن پڑھنے میں خلاف فطرت باتوں کے متعلق شاعر کا مذاق بھی اڑاتا گیا۔ میں پڑھ ہی رہا تھا کہ مور نے نہایت غصیلی آواز سے کہا، ’’اوبے ادب خاموش! تجھ جیسا جاہل اس عالی قدر شاعر کو کیا سمجھ سکتا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ وہ شاعر ہی نہ تھا بلکہ بجلی کی قوت اور کل پرزوں کی ترکیب کا بھی پورا ماہر تھا۔ تم جیسوں کے لیے اس کی باتیں مضحکہ خیز ہوں تو ہوں لیکن سمجھنے والے کے لیے اس کا ہر نکتہ چراغ ہدایت ہے۔‘‘ یہ سن کر میں دم بخود ہو گیا۔ کیونکہ ڈرتا تھا کہ یہ حضرت کہیں بجلی کے ایک جھٹکے میں میرے جسم کے ذرات بناکر ہوا میں نہ اڑا دیں۔ اس لیے ٹالنے کے لیے مسکرا کر کہا کہ، ’’اگر تم کو یہ کتاب پسند ہے تو میں چھوڑے جاتا ہوں۔ میرے تو کسی کام کی نہیں۔ اس سے کیا بہتر ہے کہ میرے کسی دوست کے کام آجائے۔‘‘ مور نے کتاب میرے ہاتھ سے لے لی۔ میرا بہت بہت شکریہ ادا کیا اور کہا کہ ’’یار عزیز اس کتاب نے اس وقت دماغ میں ایک نیا خیال پیدا کر دیا ہے۔ اس کو میں عملی صورت دینا چاہتا ہوں۔ بس اب آپ اپنے گھر سدھاریں تو بہتر ہے۔ اچھا خدا حافظ۔‘‘ اس کی یہ اکھڑی اکھڑی باتیں سن کر بڑی کوفت ہوئی اور میں دل میں اس کو صلواتیں سناتا ہوا اپنے گھر چلا آیا۔چند روز تک میرا مور کے پاس جانا نہ ہو سکا۔ ایک دن جو ادھر گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ مور کے دارالتجربہ میں ایک نہایت خوب صورت مشکی گھوڑا کھڑا ہنہنا رہا ہے۔ مجھے مور کے پاس گھوڑا دیکھ کر بڑا تعجب ہوا کیونکہ بھلا ایسے شخص کو ایسی چیزوں سے کیا واسطہ۔ میں خود گھوڑوں کا بہت بڑا شوقین ہوں۔ کوئی گھوڑ دوڑ نہیں ہوتی جس میں اپنا کام ہرج کر کے نہ جاؤں۔ اس گھوڑے کو جو دیکھا تو بظاہر جاندار پایا۔ پاس جا کر تھپکا۔ سم دیکھے۔ بھونریاں دیکھیں۔ جوڑ دیکھے۔ غرض ہر طرح بے عیب پایا۔ اتنے میں مور بھی اپنے کسی تجربے سے فارغ ہو کر میرے پاس آ کھڑے ہوئے۔ میں نے پوچھا، ’’یار من یہ گھوڑا کہا ں سے مار لائے اور لاکر کہاں رکھا ہے کہ دارالتجربہ میں۔ کیا خون کا امتحان کر رہے ہو یا بجلی سے علاج۔‘‘مور نے بڑے زور سے قہقہہ مارا اور کہا، ’’یار جانی! یہ وہی میر حسن کی مثنوی والا گھوڑا ہے۔ فرق اتنا ہے کہ یہ صرف دوڑتا ہے۔ اڑ نہیں سکتا۔ میں نے تم سے پہلے ہی کہا تھا کہ یہ شاعر غضب کا دماغ لے کر آیا تھا۔ پرزے تو میں نے بھی نکال لیے مگر ان کو بٹھا نہیں سکتا۔ خیر آئندہ دیکھا جائے گا۔‘‘ مجھے مور کی یہ گفتگو بہت بری معلوم ہوئی۔ گویا ہم کو اندھا بنا رہا ہے۔ میں اس کو برا بھلا کہتا رہا مگر وہ برابر ہنستا رہا۔ آخر کہنے لگا کہ ’’ کیا واقعی تم اس کو اصلی گھوڑا سمجھتے ہو؟‘‘ میں نے کہا، ’’اور نہیں تو کیا یہ مٹی کا ہے۔‘‘مور مٹی کا نہیں تو کل کا ضرور ہے۔میں تو کیا میں اندھا ہوں۔مور تو اس کا اندازہ تم خود کر لو۔یہ کہہ کر اس نے گھوڑے کے ایک پہلو کو دبایا اور پہلو کا پہلو اٹھا کر دوسری طرف الٹ دیا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ گھوڑے کے پیٹ میں ہزاروں تار ادھر سے ادھر دوڑے ہوئے ہیں۔ سیکڑوں پرزے اس سرےسے اس سرے تک بیٹھے ہوئے ہیں اور بیسیوں مقناطیس اور بیٹریاں جا بجا جمی ہوئی ہیں۔ یہ دیکھ کر میرے ہوش گم ہو گئے۔ جب ذرا سنبھلا تو پوچھا کہ مور کیا واقعی یہ گھوڑا دوڑ سکتا ہے؟مور تو کیا میں نے یہ بچوں کا کھلونا بنایا ہے۔ میاں دوڑے گا اور خوب دوڑے گا۔میں اور اس کی انتہائی رفتار۔مور اس کا تو میں کوئی صحیح اندازہ نہیں کر سکتا لیکن میرے خیال میں کم از کم 300 میل فی گھنٹہ ہوگی۔میں 300 میل!مور ہاں 300 تین سو میل بلکہ کچھ زیادہ۔یہ سنتے ہی مجھے ٹکے پیدا کرنے کا خیال آ گیا اور سوچا کہ اس گھوڑے سے کچھ فائدہ اٹھانا چاہئے۔ میں نے مور پر ڈورے ڈالنے شروع کئے۔ کیونکہ میں سمجھتا تھا کہ اگر یہ دو تین دوڑیں بھی جیت گیا تو بس میرے دلدر پار ہو گئے۔میں کیوں یار اسے ڈربی کے گھوڑ دوڑ میں کیوں نہیں دوڑاتے؟مور ڈربی کیا بلا ہے؟میں نے اس کو سمجھانا چاہا مگر گھوڑ دوڑ کا مطلب نہ اس کو سمجھ میں آتا تھا نہ آیا۔ آخر تھک کر میں نے اس سے کہا، ’’اچھا یہ تو بتاؤ اس کی رفتار کم زیادہ ہو سکتی ہے؟مور یہ بھی ایک ہی کہی۔ اگر رفتار کم زیادہ نہ ہو سکے تو پھر ایجاد ہی کیا خاک ہوئی۔

میں خیر یہ تو بتاؤ اس گھوڑے کا تم کروگے کیا۔ کیا اچار ڈالو گے۔مور کچھ نہیں کوئی صاحب آ کر اٹھا لے جائیں گے۔ پھر نہ گھوڑے کو مجھ سے کچھ کام اور نہ مجھ کو گھوڑے سے کچھ غرض۔میں تو پھر یہ مجھے ہی دے ڈالو۔مور تم ہی لے جاؤ۔ اور سچ تو یہ ہے کہ یہ حق بھی تمہارا ہی ہے۔ تمہاری ہی کتاب سے یہ پیدا ہوا ہے اور تم ہی اس کے سب سے زیادہ مستحق ہو۔اندھا کیا چاہے دو آنکھیں۔ میں نے مور سےاس کے چلانے کی پوری ترکیب سیکھ لی۔ گھوڑے کو کمرے سے نکالا، سوار ہو کر گھر آیا۔ اور تھان پر باندھ دیا۔ اس کے ایک دو روز بعد میں مور کے پاس گیا۔ اس گھوڑے کا کچھ ذکر بھی چھیڑا لیکن میرے یار کو یہ بھی یاد نہ رہا کہ اس نے ایسا کوئی گھوڑا بنایا بھی تھا یا نہیں۔ چلو گئی گزری بات ہوئی۔میرا ارادہ ہوا کہ ڈربی سے پہلے اس گھوڑے کو دو تین چھوٹی موٹی دوڑوں میں بھگا لوں تاکہ لوگ اس کی حالت سے آگاہ ہو جائیں اور ایک دفعہ ایسی بڑی دوڑ میں شریک ہونے کے متعلق کوئی ضابطہ کا اعتراض نہ ہو سکے۔ رجسٹر میں گھوڑے کا اندراج کرنے کے لیے گھوڑ دوڑ کے مہتمم نے اس کا نام دریافت کیا۔ یہ ٹیڑھی کھیر تھی اور میں اس کے لئے تیار نہ تھا لیکن میری تیزی طبع نے اس مشکل کو بہ آسانی رفع کر دیا۔ پہلے میں نے اس کا نام آدم بتایا۔ مہتمم نے ماں اور باپ کا نام پوچھا۔ میں نے کہا کہ آدم کی پیدائش کے لئے ماں باپ کی ضرورت نہیں ہے۔ مگر جب انہوں نے ضابطے کی دفعہ بتائی تو مجھے لا چار نام تبدیل کرنا پڑا۔ آخر سوچتے سوچتے’’ایجاد‘‘ نام سمجھ میں آیا۔ ’’ضرورت‘‘ کو ایجاد کی ماں بتایا اور ’تجربہ‘ کو اس کا باپ دادا۔ پر دادا کا نام دریافت کیا گیا تو نادر شاہ کے نسب نامے پر عمل کر کے شمشیر ابن شمشیر ابن شمشیر کے بجائے ترقی ابن ترقی ابن ترقی کا سلسلہ ستر پشت تک گنوا دیا۔ یہ بیان کافی سمجھا گیا اور ’’ایجاد‘‘ کے نام سے میرے گھوڑے کی رجسٹری ہو گئی۔اب دوسری مشکل چابک سوار کی تھی۔ سوار ایسا ہونا چاہئے تھا جس کا نام فہرست چابک سواران میں بھی درج ہو۔ اور جو لفظ ضمیر اوراس کے مفہوم سے بالکل بے خبر ہو، اور ساتھ ہی قابل اعتبار بھی ہو۔ ظاہر ہے ان صفات کا انسان ملنا آسان نہیں۔ مگر مثل مشہور ہے جو یندہ پائندہ۔ ایک اللہ کے بندے کو ڈھونڈ ڈھانڈ کر نکال ہی لیا۔ اس کا نام فہرست میں تو ضرور تھا لیکن مرد میدان نہ تھے۔ دو چار مرتبہ گھوڑ دوڑ میں شریک بھی ہوئے مگر اپنی نا اہلی سے جیتے ہوئے گھوڑوں کو ہرا دیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ روٹیوں کو محتاج ہو گئے۔آپ سمجھ سکتے ہیں کہ جس کے کھانے کو رزق اور مرنے کو موت نہ ہو۔ وہ بے چارہ ضمیر اور اس کے پیچیدہ مسائل کی بحث میں کیوں جانے لگا۔ قصہ مختصر انہوں نے بلا پس و پیش نہایت خوشی سی میری ملازمت قبول کر لی۔ مجھے ان کی تما م صفتوں میں ان کی خاموشی سب سے زیادہ پسند آئی۔ ان کی خاموشی کا آپ اس سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ تصاویر ان کی خاموشی پر رشک کرتی تھیں اور بت اس دیو جانسن کلبی کے سامنے افلاطون او سسرو معلوم ہوتے تھے۔ان کا نام تو کلیمینٹس، جولیس، آگسٹس جو فری ڈی گبریلیو تھا لیکن اپنی خاموشی کو نبھانے کے لئے یہ صرف اپنا نام ’’کل‘‘ بتایا کرتے تھے۔ چلو چھٹی ہوئی۔ گھوڑا بھی کل کا اور چلانے والا بھی مجسم ’’کل۔‘‘یہاں بات یہ ہے کہ یہ سب بن پڑے کا سودا ہے۔ جب تقدیر سیدھی ہو جاتی ہے تو سب مشکلیں اپنے آپ کھلتی چلی جاتی ہیں۔ چند ہی روز میں گھوڑا بھی مل گیا اور کوڑا بھی مل گیا۔ اب رہ گئی دوڑ۔ وہ تو پہلے سے جیتی جتائی رکھی تھی۔غرض اسی طرح دن پر دن گزرتے گئے اور آخر کار گھوڑ دوڑ کا دن آ گیا لیکن اس گھوڑے نے ایسی گم نامی میں پرورش پائی تھی کہ کسی کو کانوں کان خبر نہ تھی کہ ’’ایجاد‘‘ کیا بلا ہے۔ کس دَم کَس کا ہے اور اس کے جیتنے کی توقع بھی ہے یا نہیں۔ عین گھوڑ دوڑ کے دن صبح کو مور کی پہلی بے وقوفی کا اظہار ہوا۔ شاید اس کو یہ بھی معلوم نہ تھا کہ زین گھوڑے کی کمر پر کسا جاتاہے۔ اگر معلوم ہوتا تو رفتار بدلنے کے بٹن پیٹھ پر قائم نہ کرتا۔ پہلی رفتار کا تعلق لگام سے رکھا تھا لیکن بقیہ جس قدر تیز رفتاریاں تھیں ان کے بٹن آگے پیچھے گھوڑے کی پیٹھ پر لگا دیے تھے۔ آخر مسٹر کل نے اس معمے کو حل کیا اور زین بجائے پیٹھ کے ’’ایجاد‘‘ کے پٹھوں پر کس دیا۔ چوں کہ رکابوں کے لیے جگہ نہ تھی اس لیےان کو سرے سے اڑا ہی دیا۔ اور مسٹر کل زین پر اکڑوں بیٹھ کر مقابلے کے لیے میدان میں اس طرح داخل ہوئے کہ ان کی سوکھی سوکھی ٹانگوں کے گھٹنے ان کے کانوں سے اوپر نکل گئے تھے۔ کمر دہری ہو کر کمان بن گئی تھی، او ر وہ گھوڑے کے ہر جھٹکے پر زین سے پھدکتے اور پھر وہیں آ بیٹھتے تھے۔رغبت اور نفرت دیوانگی کی ابتدائی حالتوں کا نام ہے۔ طبیعت ایک چیز کو بلا وجہ پسند کرتی ہے اور دوسری کو بلا سبب نا پسند۔ یہی حالت گھوڑ دوڑ کے گھوڑوں کی ہے۔ بعض گھوڑوں کو محض اس وجہ سے پسند کیا جاتا ہے کہ ان کے باپ داداؤں نے یہ کار گزاریاں دکھائی تھیں او ر بعض کو اس لیے نظر سے گرا دیا جاتا ہے کہ ان کا سلسلہ نسب حضرت آدم کے گھوڑے تک نہیں پہنچتا۔ میرے بے چارے گھوڑے کو اس طوفان بے تمیزی میں کون پوچھتا۔ اس کی حالت بس اس نواب بو چڑیا راجہ پنساری کی سی تھی جو پشتینی نوابوں اور راجاؤں کے کسی جلسے میں آ گیا ہو۔ کسی نے نظر اٹھا کر بھی نہ دیکھا کہ یہ گھوڑا ہے یا گھوڑی، گدھا ہے یا خچر۔ جب یہ صورت ہو تو بھلا اس چیز کا کون اندازہ کر نے لگا کہ واقعی یہ گھوڑا ہے بھی یا نہیں۔ البتہ مسٹر کل کے طریقہ نشست کا بڑا خاکہ اڑایا گیا۔ مگر اس اللہ کے بندے نے یہ بھی سمجھنے کی کوشش نہ کی کہ یہ فقرے اس پر کسے جا رہے ہیں یا کسی اور پر۔ شرطوں کی یہ حالت تھی کہ بعض گھوڑوں پر ایک کے دو بھی مشکل سے ملتے تھے مگر ’ایجاد‘ پر ایک ایک کے سو سو دینے پر لوگ تیار تھے۔ میں نے بھی اپنی جمع پونجی سب اس شرط پر لگا دی۔ اور نہایت اطمینان کے ساتھ کرسی پر بیٹھ کر نتیجہ کا منتظر رہا۔گھنٹی بجی، جھنڈی گری اور گھوڑے تیر کی طرح نکلے۔ مسٹر کل نے یہ ہوشیاری کی کہ ایجاد کو شتر بے مہار نہیں کیا بلکہ اس کو نہایت احتیاط سے چلاتا ہوا لایا اور صرف ناک کی پھننگ سے سے یہ دوڑ جیتی۔ ہزاروں کے دیوالے نکل گئے اور میں نے صرف ایک دوڑ میں دس لاکھ روپے سمیٹ لیے۔ اس میں سے ایک لاکھ روپے تو مسٹر کل کے حصے میں آئے اور بقیہ نے میری حالت قابل رشک بنا دی۔ تمام دنیا میں اس دوڑ کا چرچا ہو گیا۔ تین اخباروں کے مضامین کے کچھ حصے نقل کرتا ہوں۔ اس سے لوگوں کے خیالات کا اندازہ لگ سکے گا۔’اخبار گھوڑ دوڑ‘لکھتا ہے، ’’ہم کو معتبر ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ جو گھوڑا گزشتہ دوڑ میں جیتا ہے وہ سلطان روم کی خاص سواری کا تھا اور محض اس کی قوت اور کس کا اندازہ کرنے کے لیے تبدیل نام کے ساتھ اس کو اس دوڑ میں شریک کیا گیا تھا۔ ہم نے اپنے قارئین کی اطلاع کے لیے ہزاروں روپے خرچ کر کے یہ بھی دریافت کر لیا ہے کہ اس گھوڑے کی نسل پوشیدہ رکھنے میں انتہائی کوشش کی جاتی ہےاور بچہ پیدا ہونے کے بعد ہی ماں اور باپ دونوں کو مار دیا جاتا ہے تاکہ نسل زیادہ نہ بڑھے۔ یہ اب تک پتا نہ چلا کہ ان گھوڑوں کا جنگل صحرائے عرب کے کس حصے میں واقع ہے۔ البتہ یہ ضرور معلوم ہو چکا ہے کہ جتنے سائیس اور سوار اس جنگل میں ہیں، ان کی آنکھیں پھوڑ دی گئی ہیں اور زبانیں کاٹ لی گئی ہیں تاکہ کسی کو اس جنگل کی جائے وقوع معلوم نہ ہو سکے۔ آئندہ جو مزید حالات ظاہر ہوں گے وہ ناظرین کی معلومات میں اضافہ کرنے کے لیے پیش کئے جائیں گے۔‘‘اقتباس از اخبار پنچمحققین زبان کو یہ معلوم کر کے بڑی مسرت ہوگی کہ ’’دم پر نمدہ باندھنےاور دم دبا کر بھاگنے‘‘ کے محاوروں کی اصلیت کو گذشتہ گھوڑ دوڑ میں ایک نئے گھوڑے ’’ایجاد‘‘ نامی نے ظاہر کر دیا۔ان دونوں محاوروں کا مفہوم ہمیشہ ’’بے تحاشا بھاگنا‘‘ لیا جاتا ہے لیکن کسی کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ دم پر نمدہ باندھنے یا دم دبانے سے رفتار میں تیزی کس طرح پیدا ہو سکتی ہے۔ اس گھوڑ دوڑ میں ’’ایجاد‘‘ کے زین کا نمدہ یعنی عرق گیر بجائے کمر پر ر کھنے کے اس کے پٹھوں پر رکھا گیا اور واقعی اس طرح اس کی دم پر نمدہ بھی آ گیا۔ او ر دم دب بھی گئی۔ اس گھوڑے کا ایسی بڑی دوڑ جیتنا، اس کی تیز رفتاری کا بین ثبوت ہے۔ ہم اس گھوڑے کے مالک کو ان کی کامیابی پر مبارک باد بھی دیتے ہیں اور لغات کے اہل فن کی جانب سے شکریہ بھی ادا کرتے ہیں کہ ان کے گھوڑے کی بدولت بہ آسانی دو پیچیدہ محاوروں کی تشریح ہو گئی۔‘‘ مقالہ افتتاحیہ ’اخبار سائینس‘رواج اور قدامت پسندی ہمیشہ سے مانع ترقی رہے ہیں لیکن بلحاظ اپنی قدامت کے کوئی ایسا رواج ہماری نظر سے نہیں گذرا جو گھوڑوں پر زین کسنے کے پرانے طریقے کا مقابلہ کر سکے۔ تاریخ پر جہاں تک نظر ڈالی جاتی ہے اور پرانے کتبوں، تصویروں اور مجسموں کو جہاں تک دیکھا جاتا ہے، یہی پتا چلتا ہے کہ زین یا چار جامہ ہمیشہ گھوڑوں کی پیٹھ ہی پر ڈالا گیا ہے لیکن اصول سائینس سے اگر اس طریقہ عمل کو دیکھا جائے تو یقیناً پہلی نظر میں یہ بالکل خلاف فطرت معلوم ہوگا۔ گھوڑے کی بناوٹ ظاہر کر رہی ہے کہ اس کے پچھلے پٹھے بوجھ سہارنے کے لئے بنائے گئے ہیں نہ کہ اگلی ٹانگیں۔ اگر فطرت کا یہ تقاضا ہوتا تو پیٹھ پر بوجھ قائم کیا جائے تو گھوڑے کے اگلے اور پچھلے پیر دونوں کی وضع ایک ہی ہوتی ہے تاکہ بوجھ ان چاروں حصوں پر برابر تقسیم ہو جائے لیکن گھوڑے کی ساخت زبان حال سے بتا رہی ہے کہ اس کے پچھلے پیروں پر بوجھ ڈالواور اگلے پاؤں رفتار کے لئے چھوڑ دو۔خود چو پاؤں کے بھاگنے کے طریقے پر اگر سائینس کے اصولوں کو پیش نظر رکھ کر دیکھا جائے تو یہ مسئلہ اور بھی آسانی سے حل ہو جاتا ہے۔ جانور کی چاروں ٹانگیں اگر آگے کو جھکیں گی تو ہمیشہ رفتار میں تیزی پیدا ہوگی۔ بر خلاف اس کے اگر دو آگے کی طرف اور دو پیچھے کی جانب مائل ہوں گی تو اس کو تیز چلنے میں دشواری ہوگی۔ اس اصول کو اب واقعات سے منطبق کیجئے۔ جانور کی پیٹھ پر بوجھ رکھنے کا یہ لازمی نتیجہ ہوتا ہے کہ اس کی پچھلی ٹانگیں تو ضرور آگے کو جھک آتی ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی اس کے اگلے پیر بجائے آگے جھکنے کے پیچھے کی طرف مائل ہو جاتے ہیں ا ور اس سے یقیناً رفتار پر بہت برا اثر پڑتا ہے۔یہ مسئلہ عرصے سے ہمارے زیر غور تھا لیکن ہم اس پر کچھ لکھنے کی ہرگز جرأت نہ کرتے اگر گزشتہ گھوڑ دوڑ میں ’’ایجاد‘‘ نے اصول کو عملاً ثابت نہ کر دیا ہوتا کیونکہ ایسے قدیم رواج کے خلاف ایک حرف بھی لکھنا مفت کی لڑائی مول لینا ہے۔ ہم کو امید ہے کہ اب قدامت پسند لوگوں کی آنکھیں سائنس کا عملی تجربہ دیکھنے کے بعد کھلیں گی اور آئندہ گھوڑ دوڑ میں ہم رواج کے مقابلے میں سائینس کی فتح کو اس شکل میں دیکھیں گے کہ بجائے پیٹھ کے سب گھوڑوں کے پٹھوں پر زین کسے ہوں گے۔غرض خدا خدا کر کے ایک ہی گھوڑ دوڑ میں میری مالی حالت درست ہو گئی لیکن اب مصیبت یہ آ پڑی کہ جو سہولتیں ’’ایجاد‘‘ کی گم نامی کی وجہ سے تھیں وہ جاتی رہیں اور اب لوگوں پر یہ ظاہر کرنا پڑا۔ یہ کھاتا پیتا، ہگتا، موتتا ہوا گھوڑا ہے۔ یہ کام بظاہر مشکل تھا مگر میری جدت طبع نے اس کو بھی آسان کر دیا۔ ایک اسی کے قد و قامت، رنگ ڈھنگ، وضع قطع کا گھوڑا راتوں رات خرید لایا۔ اصلی گھوڑے کو تھان پر باندھ دیا اور نقلی کو ایک کمرے میں بند کر دیا۔ بڑے بڑے ماہران فن آتے اور گھوڑے کو دیکھ کر حیران رہ جاتے کہ اس میں تو کوئی ایسی خوبی نظر نہیں آتی جو اتنی بڑی گھوڑ دوڑ اس کو جتوا سکے۔ نہ تو جوڑی مضبوط ہیں اور نہ بناوٹ ایسی سبک ہے پھر اس قیامت کی رفتار اس میں پیدا ہو گئی تو کہاں سے پیدا ہو گئی۔ غرض جتنے منہ اتنی ہی باتیں۔ ہر شخص اپنی ہانکتا تھا مگر اس عقدہ کو کوئی نہ کھول سکتا تھا۔ آخر ہوتے ہوتے دوسری گھوڑدوڑ کا دن آ گیا۔ رات ہی کو نقلی اصطبل میں اور اصلی کمرے میں منتقل کر دیا گیا۔ اور میں اور مسٹر کل گھوڑے کو لے کر عین وقت پر میدان میں پہنچے۔کیا دیکھتا ہوں کہ جتنے گھوڑے دوڑنے والے ہیں، سب ایک قطار باندھے کھڑے ہیں اور بڑے بڑے حساب داں تقسیم وزن کا لحاظ کر کے ناپ ناپ کر ان کے پٹھون ر زین بندھوا رہے ہیں۔ غرض یہ مشکل بھی آسان ہوئی اور گھنٹہ بجتے ہی سب گھوڑے دوڑ کے لیے ایک صف میں کھڑے ہو گئے۔ ادھر جھنڈی گری اور ادھر سواروں نے گھوڑوں کے چابک رسید کیے۔ چابک مارنا تھا کہ قیامت بپا ہو گئی۔ مارے دو لتیوں اور پشتکوں کے گھوڑوں کے سواروں کی جانیں ہلا دیں۔ بعض تو ڈر کر کود گئے۔ بعض ہمت والے تھے اور جھٹکے جھیلتے رہے لیکن تھوڑی ہی دیر میں تماشائیوں کے سروں اور کندھوں پر گٹھریوں کی شکل میں نظر آئے۔ ایک ’’ایجاد‘‘ تھا کہ وہ اول آخر سب ہی کچھ رہا۔ چونکہ اس دوڑ میں لوگوں نے ذرا سمجھ بوجھ کر روپیہ لگایا تھا، اس لیے میری آمدنی بھی کچھ زیادہ نہ ہوئی۔ پھر بھی ستر اسی ہزار روپے میں نے بناہی لیے۔اس واقعے کے متعلق اخباروں میں جو مضامین شائع ہوئے ہیں ان میں سے بعض کا اقتباس ناظرین کی ضیافت طبع کے لئے درج ذیل کیا جاتا ہے۔’اخبار گھوڑ دوڑ‘ہم کو سرکاری طور پر اطلاع ملی ہے کہ علاقہ نجد کے کسی نا معلوم مقام پر دو ہوائی جہازوں پر گولیاں برسائی گئیں جس کی وجہ سے وہ نیچے اترنے پر مجبور ہوئے۔ دونوں جہازوں پر جتنے لوگ سوار تھے ان سب کو نہایت بے دردی سے ذبح کر دیا گیا۔ معلوم ہوتا تھا کہ اسی مقام کے آس پاس کہیں سلطان روم کے خاصے کے گھوڑوں کا جنگل ہے۔ ورنہ بلا وجہ جہازوں پر گولیاں چلانے اور ان کی سواریوں کو ہلاک کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ امید ہے کہ گورنمنٹ اس ہم معاملے کواپنے ہاتھ میں لے کر صدیوں کے راز کا انکشاف کرے گی۔پنچ میں ایک نہایت مختصر سا مضمون تھا۔ لکھا تھا کہ ’’اس مرتبہ گھوڑوں کے دموں پر نمدہ باندھا گیا تھا مگر بدقسمتی سے دوڑ کے وقت بہت سواروں کے چوتڑوں پر نمدہ بندھ گیا اور اکثر سواروں میں اتنی تیزی آ گئی کہ وہ اپنے زور میں اچھل اچھل کر گھوڑوں کی گردنوں سے آگے نکل گئے۔‘‘ اخبار سائینس کا مضمون بہت عالمانہ تھا۔ اس نے روح پر بحث کر کے لکھا تھا کہ ’’ماہرانِ فنِ علمِ حیوانات اس وقت قائل نہ تھے کہ انسان اور حیوان دونوں میں ایک ہی قسم کی روح ہوتی ہےاور اسی لیے حیوانوں میں بھی رواج اور قدامت پسندی اسی طرح جاری اور ساری ہے جس طرح انسانوں میں ہے۔ اس مسئلے کا تصفیہ گذشتہ گھوڑدوڑ نے نہایت اطمینان بخش طریقے پر کر دیا اور اب کسی کو اس کے خلاف زبان ہلانے کی گنجائش نہیں رہی۔ رواج قدیم کے خلاف مگر اصول سائینس کے موافق اس گھوڑ دوڑ میں زین بجائے پیٹھ پر رکھنے کے گھوڑوں کے پٹھوں پر کسا گیا تھا۔ گو اس طریق عمل سے ان جانوروں کو زیادہ آسائش و سہولت تھی۔ لیکن رواج قدیم کے خلاف ہونے کی وجہ سے انہوں نے بطور احتجاج دو لتیاں جھاڑنا اور پشتکین مارنا شروع کیا۔نتیجہ یہ ہوا کہ ان گھوڑوں کی بے وقوفی کے باعث پھر ’’ایجاد‘‘ نامی گھوڑا جو اصول سائینس کو سمجھتا اور اپنی آسائش کا احساس رکھتا تھا، بازی لے گیا لیکن وہ زمانہ کچھ دور نہیں ہے جب یہ جانور بھی اپنی ضد سے باز آئیں گے اور اپنی قدامت پسندی کو اسی طرح ترک کر دیں گے جس طرح گزشتہ گھوڑ دوڑ کے بعد سے انسانوں نے ترک کر دیا ہے۔‘‘ اب ڈربی کا نازک زمانہ قریب آ گیا اور ’’ایجاد‘‘ کے ٹکٹوں کی قیمت چڑھنا شروع ہوئی۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ روپے پر ایک آنہ بھی کوئی دینے کو تیار نہ تھا لیکن اس کے ساتھ ہی میں ایک دوسرے خلجان پر پڑ گیا۔ جو لوگ گھوڑ دوڑ کے فن سے واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ ایک گھوڑے کے نکل جانے سے شرطوں میں زمین و آسمان کا فرق پڑ جاتا ہے۔ اس لیے بعض بے ایمان لوگ ایسے نکل آتے ہیں جو گھوڑوں کو زہر دینے یا اصطبل کو بم سے اڑھا دینے میں بھی تامل نہیں کرتے۔ باوجود میری حفاظتی تدابیر کے ایک روز رات کے بارہ بجے میرا اصطبل مع اصلی گھوڑے کے بم سے اڑا دیا گیا اور بچارے نا کردہ گناہ کے چھیچڑے اور کھال کے ٹکڑے کئی کئی میل کے فاصلے پر پائے گئے لیکن شکر ہے کہ میرا ’’ایجاد‘‘ اس حملے سے محفوظ رہا۔دوسرے دن ہی صبح کو اس واقعے کا حال اخباروں میں بڑے بڑے موٹے موٹے حرفوں میں چھپ گیا اور چھپنے کے ساتھ ہی ایجاد کے ٹکٹوں کی قیمت گر گئی۔ میرے لئے یہ ’’خدا شرے بر انگیزو کہ خیرے مادر آن باشد‘‘ کا مصداق ہو گیا۔ اور میں نے دل کھول کر ٹکٹ خریدنا شروع کئے۔ ہزاروں تار تعزیت کے آئے مگر میں نے ایک بھی جواب نہ دیا۔ لوگوں کو تعجب ہوتا تھا کہ میں مرے ہوئے گھوڑے کے ٹکٹ کیوں خرید رہا ہوں۔ لوگوں میں بہت کچھ چہ می گوئیاں ہوئیں اور آخر انہوں نے پتا چلا لیا کہ ’’ایجاد‘‘ میرے سونے کے کمرے میں صحیح سلامت موجود ہے۔ڈربی سے ایک دن پہلے میں اور مسٹر کل اپنے کمرے میں کھڑے گھوڑے کی دیکھ بھال کر رہے تھے کہ سامنے کی کھڑکی میں سے پستول چلا اور گولی ’’ایجاد‘‘ کے پہلو میں لگ کر آر سے پار ہوگئی۔ میں کھڑکی سے کود کر اس شخص کے پیچھے بھاگا لیکن وہ ہاتھ نہ آیا۔ پولیس میں اطلاع دینا گویا اپنا راز کھول کر خود کو تباہ کرلینا تھا۔ اس لیے خاموشی اختیار کی۔ واپس آ کرمیں نے اور مسٹر کل نے ’’ایجاد‘‘ کے پرزوں کو اچھی طرح دیکھا بھالا۔ لیکن کوئی خرابی نظر نہ آئی۔ اور ہم نے ’’رسیدہ بود بلائے ولے بخیر گذشت‘‘ کا ورد کر کے ساری رات آنکھوں ہی آنکھوں میں کاٹ دی۔میں ’’ایجاد‘‘ کے مالک کی حیثیت سے تو تمام دنیا میں مشہور ہو گیا تھا لیکن دل چاہتا تھا کہ ’’ایجاد‘‘ پر سوار ہو کر اور خود ڈربی جیت کر اپنی شہرت کو چار چاند لگاؤں۔ اس لئے میں نے تہیہ کر لیا کہ کچھ ہی کیوں نہ ہو۔ اس مرتبہ تو میں ہی اس پر سوار ہوں گا۔ مسٹر کل نے منع بھی کیا لیکن میں نے ایک نہ مانی اور صبح ہی سے تیاری شروع کر دی۔ڈربی کے میدان میں پہنچا تو دل ہیبت سے کانپ گیا جہاں تک نظر جاتی تھی، آدمی ہی آدمی نظر آتے تھے۔ خود بادشاہ سلامت بھی مع خاندان شاہی کے رونق افروز تھے۔ تمام گھوڑے یکے بعد دیگرے ان کے سامنے سے گزارے گئے۔ جب ’’ایجاد‘‘ میدان میں آیا تو تالیوں کی آواز سے آسمان گونج گیا۔ میں نے بھی خراماں خراماں گھوڑے کو میدان کا چکر دیا اور سب گھوڑوں میں ملا کر کھڑا کر دیا۔ گھنٹہ بجا، جھنڈی گری اور سب گھوڑے آندھی کی طرح رواں ہوئے مگر ’’ایجاد‘‘ نے بے تحاشا بدکنا شروع کیا۔ ایک تو غصہ دوسرے شرمندگی۔ میں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ بڑے زور سے تیز رفتاری کا بٹن دبا دیا۔ جس وقت بٹن دبایا تو اس کے منہ کی بجائے اس کی پیٹھ میدان کی طرف تھی۔ میری حیرت کی کچھ انتہا نہ رہی۔ جب میں نے دیکھا کہ ’’ایجاد‘‘ نے پوری رفتار کے ساتھ الٹے پاؤں بھاگنا شروع کیا۔معلوم ہوتا ہے کہ رات کی گولی نے لگام والی رفتار کے پرزے کو تو کوئی ضرور نہیں پہنچایا تھا مگر تیز رفتاری کے پرزوں کے عمل کو بالکل بدل دیا تھا۔ میں نے گھوڑے کو روکنا چاہا تو پسینے چھوٹ گئے۔ کیوں کہ میرے زور سے بٹن دبانے کی وجہ سے بٹن دب کر ٹوٹ گیا تھا۔ اب کیا تھا گھوڑا ہوا سے باتیں کرنے لگا۔ تھوڑی دیر میں دوسرے گھوڑوں کا جالیا اور آن واحد میں ان سے آگے نکل گیا۔ گو یہ گھوڑے آگے بڑھ رہے تھے مگر میرے الٹی رفتار کے باعث پیچھے ہٹتے ہوئے معلوم ہوتے تھے اور گو میں پیچھے ہٹ رہا تھا لیکن در اصل ان سے آگے بڑھا جاتا تھا لوگوں کے قہقہوں اور تالیوں نے صور اسرافیل کی صورت پیدا کر لی۔ اور بعض سواروں کی ہنسی کی وجہ سے اپنے گھوڑوں کو روکنا پڑا۔ واقعے کے بیان کرنے میں عرصہ لگا ہے لیکن خود یہ واقعہ شرو ع ہوا، اور آنا فاناً میں ختم ہو گیا اورڈربی کی تاریخ میں یہ پہلا اور آخری موقع تھا کہ جیتنے میں کسی گھوڑے کا حساب سر کی لمبان سے لگانے کی بجائے دم کی لمبان سے لگانا پڑا ہو۔اب مشکل یہ آ پڑی تھی کہ گھوڑا نہ اب رکتا ہے نہ جب۔ میدان کو عبور کر کے باڑ کو توڑتا ہوا تماشائیوں میں گھس گیا۔ جدھر نکل گیا، کائی سی پھٹ گئی۔ بھیڑ چھٹ گئی اور میدان صاف ہو گیا۔ اب میں کروں تو کیا کروں، رفتار ایسی تیز تھی کہ کودنے کی ہمت نہ پڑتی تھی۔ میں نے دیکھا کہ دور ایک خالی موٹر کھڑی ہے۔ جب گھوڑا اس کے پاس سے نکلا میں اللہ کا نام لے دھم سے موٹر میں کود پڑا۔ اب رہے میاں ’’ایجاد‘‘ تو خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ ان کا کیا حشر ہوا۔البتہ دوسرے روز کے اخبار میں ہوائی خبر سے یہ ضرور معلوم ہوا کہ ایک گھوڑا الٹا تیرتا ہوا افریقہ کے جنوبی کنارے پر دیکھا گیا۔ اخبار گھوڑ دوڑ کا خیال ہے کہ فطرت اس کو اپنے مسکن کی طرف لے جا رہی ہے لیکن پنچ کی رائے ہے کہ جب تک اس کی دم پر نمدہ بندھا رہے گا، اس کی رفتار کم نہ ہوگی۔ اب آپ ہی بتائیے کہ دونوں میں کون سچا ہے۔ میرے چوٹ تو آئی مگر سمجھا چلو جان بچی تو لاکھوں پائے۔ لنگڑے ہو گئے تو کیا ہرج ہے، ڈربی تو جیت لی۔ بدھیا مری تو مری آگرہ تو دیکھ لیا۔


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.