کس کی رکھتی ہیں یہ مجال انکھیاں
Appearance
کس کی رکھتی ہیں یہ مجال انکھیاں
کہ دیکھیں مکھ ترا سنبھال انکھیاں
سرمہ سیتی بنا سیاہ برن
آج دل کوں ہوئی ہیں کال انکھیاں
رقص انجھواں کا بے اصول نہیں
کف مژگاں سوں دے ہیں تال انکھیاں
جب اٹھاتی ہیں گریہ سیں طوفاں
کف دریا کریں رومال انکھیاں
صید کرنے کوں دل کے مژگاں سوں
روپتے ہیں بنا کے جال انکھیاں
دل کوں اک تل نہیں مرے آرام
لگی ہیں جب سوں تیرے نال انکھیاں
دل کی خونیں اگر نہیں تو کیوں
اس قدر ہیں تمہاری لال انکھیاں
تیر مژگاں کمان ابرو سیں
مارتی ہیں جگر میں بھال انکھیاں
آبروؔ جب کبھی نگاہ کریں
تب لے جاں تن سیں جی نکال انکھیاں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |