کس منہ سے کہیں گناہ کیا ہیں
کس منہ سے کہیں گناہ کیا ہیں
توبہ ہے رو سیاہ کیا ہیں
اللہ ہے عفو کرنے والا
میں کیا ہوں مرے گناہ کیا ہیں
اے دوست ترے گدا کے آگے
کچھ بھی نہیں بادشاہ کیا ہیں
تم سا کوئی بد چلن نہ ہوگا
ہے ہے عاشق تباہ کیا ہیں
گوری گوری ہے ان کی صورت
اس پر گیسوئے سیاہ کیا ہیں
چکر میں ہیں شیخ و گبر دونو
اپنے لئے خود تباہ کیا ہیں
دیکھے کوئی حال اہل دنیا
یہ لوگ بھی واہ واہ کیا ہیں
اتریں ان سے مقابلے کو
افلاک پہ مہر و ماہ کیا ہیں
دھومیں تیغ نگاہ کی ہیں
تیور اے کج کلاہ کیا ہیں
شاہد ہیں ترے ستم کے لاکھوں
دو چار اس کے گواہ کیا ہیں
اللہ رے ان بتوں کی آنکھیں
کافر جادو نگاہ کیا ہیں
کٹ جائے گی عمر چند روزہ
فکریں شام و پگاہ کیا ہیں
ان کا تو جواب ہی نہیں ہے
ماشاء اللہ واہ کیا ہیں
اے دل الفت کے محکمے میں
قاضی کیا ہے گواہ کیا ہیں
دل ہے تو زیادہ اس سے ہوں گے
یہ نالہ و اشک و آہ کیا ہیں
پہلو میں نگار ہاتھ میں جام
اس وقت تو بادشاہ کیا ہیں
ان کی آمد جو اے صباؔ ہے
سب مطلب رو بہ راہ کیا ہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |