کس شام سے اٹھا تھا مرے دل میں درد سا
Appearance
کس شام سے اٹھا تھا مرے دل میں درد سا
سو ہو چلا ہوں پیشتر از صبح سرد سا
بیٹھا ہوں جوں غبار ضعیف اب وگرنہ میں
پھرتا رہا ہوں گلیوں میں آوارہ گرد سا
قصد طریق عشق کیا سب نے بعد قیس
لیکن ہوا نہ ایک بھی اس رہ نورد سا
حاضر یراق بے مزگی کس گھڑی نہیں
معشوق کچھ ہمارا ہے عاشق نبرد سا
کیا میرؔ ہے یہی جو ترے در پہ تھا کھڑا
نمناک چشم و خشک لب و رنگ زرد سا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |