کسی کے نقش قدم کا نشاں نہیں ملتا
Appearance
کسی کے نقش قدم کا نشاں نہیں ملتا
وہ رہ گزر ہوں جسے کارواں نہیں ملتا
قدم قدم پہ تری راہ میں فلک حائل
مجھے تلاش سے بھی آسماں نہیں ملتا
انہیں طریقۂ لطف و کرم نہیں معلوم
ہمیں سلیقۂ آہ و فغاں نہیں ملتا
عروس دہر کو غازہ بھی چاہئے لیکن
غبار جادۂ امن و اماں نہیں ملتا
دھڑک رہا ہے ہر اہل وفا کے سینے میں
ہمارا درد بھرا دل کہاں نہیں ملتا
سبھی کو دعوئے مہر و وفا ہے دنیا میں
جو مہرباں نہ ہو وہ مہرباں نہیں ملتا
غم حیات کے پر ہول قہقہوں کے سوا
کہیں سے اپنا جواب فغاں نہیں ملتا
دل شکستہ کو لے جائیے کہاں باسطؔ
دماغ نخوت شیشہ گراں نہیں ملتا
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |