کسان، مزدور، سرمایہ دار، زمیندار
ہمارے دو سال کے تجربات نے، جو ہمیں قحط زدہ علاقہ میں امدادی رقوم تقسیم کرنے کے دوران میں حاصل ہوئے ہیں، ہمارے ان دیرینہ افکار و آرا کی تصدیق کر دی ہے کہ یہ مصائب جن کی روک تھام کے لئے ہم روس کے ایک کونے میں بیٹھ کر بیرونی ذرائع سے سعی کر رہے ہیں، کسی غیر مستقل وجہ کا نتیجہ نہیں ہیں، بلکہ ان مستقل و غیر مختتم اسباب و علل کا نتیجہ ہیں جو ہم تعلیم یافتہ لوگوں کے اس غیر برادرانہ و سنگ دلانہ سلوک کے پیدا کردہ ہیں جو غریب مزدورں کے ساتھ روا رکھا جاتا ہے۔
غربا اپنی محنت و مشقت اور لامتناہی مصائب سہنے کے علی الرغم ہمارے محتاج ہیں اور ہم اس آقائی اور مولائی حیثیت کے باوجود ان سے بے پروا ہیں، اگر اس سال اس احتیاج، ستم زدگان اور بھوک (جس کے شکار لاکھوں مظلوم نوجوان اور ہزاروں سسکتے ہوئے بوڑھے اور بیسیوں بلکتے ہوئے بچے ہوتے ہیں) کی ستم آفرینیوں سے ہمارے کان ناآشنا ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ یہ بلائیں پھر نازل نہ ہوں گی۔۔۔ وہ ہماری نظروں سے اوجھل رہیں گی اور ہم انہیں فراموش کر دیں گے۔ ہم اپنے آپ کو یقین دلانے کی کوشش کریں گے کہ ان کا وجود باقی نہیں رہا اور یہ کہ اگر نام و نشاں باقی ہے تو یہ قانون قدرت ہے ہمیں اس میں کیا دخل؟ یہ یقین و تیقن دروغ بافی پر مبنی ہے۔ نہ صرف ان آفات سے بچاؤ ممکن ہے بلکہ ان کا استیصال ضروری ہے۔ وقت آ رہا ہے کہ وہ نابود ہو کر رہیں گی اور وہ وقت اب قریب تر ہے۔
ہمیں مزدور جماعتوں سے اپنا شراب سے لبریز پیالہ پوشیدہ معلوم ہوتا ہے۔ ہم جدی رسوم اور چالاک دلائل ہی سے عیش پرستی کو جائز قرار دیتے ہیں۔ عیش و عشرت کی زندگی ان مزدوروں کے درمیان گزارتے ہیں، جو محنت و مشقت کی تکالیف اٹھا کر اپنے گاڑھے پسینہ سے ہمارے لئے یہ سامان عیش مہیا کرتے ہیں۔ مگر اب مشعل علم ہمارے رشتوں کو منور بنا رہی ہے اور ہم بہت جلد ایک خطرناک مجرم کی حیثیت میں دنیا کے سامنے پیش ہوں گے۔۔۔ ایک ایسا مجرم جو یکایک طلوع آفتاب کی وجہ سے کسی جرم کا ارتکاب کرتا پکڑا جائے۔
اگر ایک دکان دار ضرر رساں اور خراب اشیا مزدوروں کے پاس فروخت کرتا ہے یا روٹی اور دیگر ضروریات زندگی کو جنہیں وہ کوڑیوں کے مول خریدے اور روپوں کے دام بیچ کر یہ دعوے کرے کہ وہ ایمانداری سے لوگوں کی ضروریات مہیا کرتا ہے، اگر سگریٹ شراب اور آئینے بنانے والا کارخانہ یہ بلند و بانگ دعوے کرے کہ وہ مزدوروں کے لئے کام مہیا کر کے ان کا روزی رساں بنا ہے، اگر کوئی افسر جو سالانہ ہزاروں پونڈ مشاہرہ حاصل کرتا ہے یہ یقین دلائے کہ وہ قوم کی خدمت کر رہا ہے اور اگر زمیندار یہ لاف زنی کرے کہ وہ زراعت کے بہترین اصولوں سے اپنے گاؤں میں خوشحال پھیلا رہا ہے۔۔۔ اگر یہ تمام چیزیں آج ممکن ہیں، یہ دعوے آج ببانگ دہل دہرائے جا سکتے ہیں جبکہ ہزاروں غریب کسان بھوک سے مر رہے ہیں اور زمیندار کئی ایکڑ زمین میں آلو کی صرف اس غرض سے کاشت کر رہا ہے کہ ان سے شراب کشید کی جا سکے تو کل یہ حالات نہ رہیں گے اور یہ دروغ دعاوی فضا کو متعفن نہ کریں گے۔
محولہ فوق وجوہ کی بنا پر ہم یہ خیال کرنے سے عاری ہو گئے ہیں کہ ان ہزاروں گرسنہ شکم لوگوں کو ’’جو ہمارے گرد کام کی زیادتی اور مشاہرے کی کمی کی وجہ سے تڑپ رہے ہیں‘‘ ہماری ضروریات بہم پہنچانے کے لئے نان خشک تک نصیب نہیں ہوتی۔ باغوں کی رنگ رلیاں، شکارگاہوں کی ہنگامہ آرائیاں، شراب نوشی کی مجلسیں، پنیر اور گوشت کے ٹکڑے تک وہ ہمارے لئے جانفشانی سے مہیا کرتے ہیں اور ہمارے عیش کی افراط ان پر کام کا اور بھاری بوجھ ڈال دیتی ہے۔ ہم روسی لوگ اپنی حقیقت اور حالت کو سمجھنے کی زیادہ اہلیت رکھتے ہیں۔ مجھے اس نوجوان کا واقعہ بخوبی یاد ہے، جو مجھ سے گزشتہ موسم سرما میں ملنے آیا تھا۔ ہمیں ایک کسان کے گھر جانے کا اتفاق ہوا۔ اس گھر میں ہرطرف میلی کچیلی چیزیں بکھری ہوئی تھیں۔ چیتھڑے لٹکائے ہوئی زرد عورتیں اور بیمار بچہ جو بلک رہا تھا۔ فضا متعفن اور کثیف تھی۔ ہر طرف اداسی اور حسرت برس رہی تھی۔ مقیموں کے زرد چہرے رحم کے متمنی تھے۔
مجھے یاد ہے کہ جب ہم جھونپڑی سے باہر نکلے تو اس نوجوان نے مجھ سے کچھ کہنا چاہا لیکن اس کی زبان تالو سے چمٹ گئی اور اس نے رونا شروع کر دیا۔ وہ ماسکو اور پیٹرز برگ میں چند مہینے گزار کر آیا تھا۔ اس نے وہاں کے حسین باغوں کی سیر کی تھی، شاندار محلات دیکھے تھے۔ جہاں ہر وقت مسرتیں کھیلتی ہیں اور ہر تعیش پسند جماعت میں شمولیت کی تھی۔ آج پہلی مرتبہ اس نے ان لوگوں کا نقشہ دیکھا جو اپنے گاڑھے پسینہ سے سامان عیش مہیا کرتے ہیں۔ وہ حیرت زدہ اور ہراساں ہو گیا۔ شاید اس بوہمیا میں، جو اس کا وطن ہے، جہاں دولت و ثروت کا کوئی شمار نہیں اور جہاں تعلیم عام ہونے کی وجہ سے ہر ایک مجلسی دائرے میں شمولیت حاصل کر سکتا ہے، مشقت کا ثمرہ معلوم ہو مگر وہ ان ہزاروں لوگوں سے قطع نظر کر کے یہ نظریہ قائم کرتا ہے جو رات کوئلے کی کانوں میں مشقتیں اٹھاتے ہیں اور یہ سامان عیش مہیا کرتے ہیں۔
شاید وہ ان لوگوں کو بھی بھول جائے جو ہماری ضروریات کو مہیا کرنے کے لئے اپنی جانیں قربان کرتے ہیں، لیکن ہم روسی لوگ ایسے خیالات کو اپنے دماغ میں جگہ نہیں دے سکتے۔ عیش اور مشقت کا رشتہ یہاں عیاں تر ہے اور ایک قوم کے افراد کی تعیش پرستیاں اور ناداریاں ہم پر روشن ہیں۔۔۔ ہم اس قیمت سے جو ہمارے عیش و آرام کی خاطر دوسرے انسانوں کو ادا کرنی پڑتی ہے، منہ نہیں پھیر سکتے۔ ہمارے لئے سورج طلوع ہو چکا ہے اور ہم حقیقت سے اغماض نہیں کر سکتے۔ ہم حکومت کی آڑلے کر لوگوں پر حکومت کرنے کی ضرورت کا عذر پیش نہیں کر سکتے۔ سائنس اور آرٹ کے پردے میں چھپ کر جو کہ موجودہ زمانے میں لازمی تصور کئے جاتے ہیں، اپنی ملکیت کے بل بوتے پر یا جدی رسوم کی تقلید کی وجہ بیان کر کے ان کمزوریوں کو نہیں چھپا سکتے اور نہ برقرار رکھ سکتے ہیں۔
آفتاب حقیقت کی کرنیں ان تمام پردوں کو چاک کر دیں گی۔۔۔ اب ہر ایک شخص جانتا ہے کہ جو لوگ حکومت کی خدمت کرتے ہیں وہ لوگوں کے فلاح کے لئے نہیں بلکہ روپیہ بٹورنے کی خاطر ہے۔ وہ لوگ جو زمین کے مالک ہیں اور وہ اپنی زمین پر کاشت کی قیمت بڑھا کر مقدس حقوق کے لئے کوشاں نہیں بلکہ اپنی عیش پرستیوں کی قیمت ادا کرنے کے لئے آمدنی کے خواہاں ہیں۔۔۔ اب یہ باتیں چھپ نہیں سکتیں! یہ دروغ تا بکے؟ اب اہل ثروت کے لئے دو راستے کشادہ ہیں۔۔۔ ان کے لئے جو کچھ کام نہیں کرتے مگر سنہری اشرفیوں کے مالک ہیں۔ ایک راستہ یہ ہے کہ وہ مذہب بلکہ انسانیت، انصاف اور اسی قسم کے دوسرے اوصاف سے منہ موڑ کر انہیں یہ کہہ کر پھٹکا ردیں۔
’’میں ان حقوق و فوائد کا واحد مالک ہوں اور خواہ کچھ بھی ہو انہیں کسی حالت میں بھی نہیں چھوڑوں گا، اگر کوئی مجھ سے یہ علیحدہ کرنا چاہے تو اسے پہلے میری طاقت کو زیرغور لانا چاہیئے۔۔۔ میرے ہاتھ میں طاقت ہے، میں سپاہی مہیا کر سکتا ہوں، قید کروا سکتا ہوں، درّے لگوا سکتا ہوں اور تو اور پھانسی پر لٹکوا سکتا ہوں۔‘‘
دوسرا راستہ اپنے قصوروں کا اعتراف، جھوٹ سے کنارہ کشی، عفو خواہی اور عوام کی امداد کے لئے سعی ہے، صرف زبانی نہیں جیسا کہ ان دو سالوں میں کی گئی ہے بلکہ اس پیسے سے جو ان کے گاڑھے پسینہ کی کمائی ہے، مگر ان سے زبردستی چھین لی گئی ہے اور ان دیواروں کو جو ہمارے اور مزدوروں کے درمیان ایستادہ ہیں، مسمار کرنا ہے، لفظوں سے نہیں بلکہ اعمال سے انہیں اپنا بھائی سمجھ کر، اپنی زندگی کے موجودہ طریقوں کو بدل کر، اپنے ذاتی حقوق اور فوائد چھوڑ کر اور مزدوروں کے ساتھ کام کر کے سائنس اور ادب کی برکات سے متمتع ہونا ہے۔۔۔ وہ برکات جو ہم بغیر ان کی رضا کے ان پر دھکیل رہے ہیں۔
ہم دو رستوں کے چوک پر کھڑے ہیں اور ہمیں ایک راستہ انتخاب کرنا ہے۔ ایک راستہ انسان کو دائمی برائیوں اور لعنتوں میں مبتلا کرنے کے لئے۔ اس میں بدکرداروں کے آشکارا ہونے کا ڈر اور موجودہ نظام کے بدل جانے کا احتمال قدم قدم پر نظر آتا ہے۔ دوسرا راستہ سچے دل سے حقیقی اصولوں کو مان لینے اور ان کی ترویج کے لئے بے لوث کوشش کرنے کے لئے کھلا ہے۔۔۔ وہ اصول جن کی ترویج کے لئے انسانی عقل و ادراک پکار رہی ہے اور آج یا کل ضرور منوا لئے جانے والے ہیں۔۔۔ اگر ہم نہیں تو ہمارے بعد کی آنے والی نسلیں انہیں منوا کر رہیں گی۔ ا س لئے کہ اس انانیت کا استیصال ہی ان تمام بلاؤں اور آفتوں سے ملک اور قوم کو بچا سکتا ہے۔ دروغ بافیوں سے احتراز، تعیش پرستیوں سے پرہیز اور برادرانہ اخوت، ان تمام بیماریوں کی تیر بہدف دوا ہے۔
This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator. |