کر نالہ کشی کب تئیں اوقات گزاریں
کر نالہ کشی کب تئیں اوقات گزاریں
فریاد کریں کس سے کہاں جا کے پکاریں
ہر دم کا بگڑنا تو کچھ اب چھوٹا ہے ان سے
شاید کسی ناکام کا بھی کام سنواریں
دل میں جو کبھو جوش غم اٹھتا ہے تو تا دیر
آنکھوں سے چلی جاتی ہیں دریا کی سی دھاریں
کیا ظلم ہے اس خونی عالم کی گلی میں
جب ہم گئے دو چار نئی دیکھیں مزاریں
جس جا کہ خس و خار کے اب ڈھیر لگے ہیں
یاں ہم نے انہیں آنکھوں سے دیکھیں ہیں بہاریں
کیوں کر کے رہے شرم مری شہر میں جب آہ
ناموس کہاں اتریں جو دریا پہ ازاریں
وے ہونٹ کہ ہے شور مسیحائی کا جن کی
دم لیویں نہ دو چار کو تا جی سے نہ ماریں
منظور ہے کب سے سر شوریدہ کا دینا
چڑھ جائے نظر کوئی تو یہ بوجھ اتاریں
بالیں پہ سر اک عمر سے ہے دست طلب کا
جو ہے سو گدا کس کنے جا ہاتھ پساریں
ان لوگوں کے تو گرد نہ پھر سب ہیں لباسی
سو گز بھی جو یہ پھاڑیں تو اک گز بھی نہ واریں
ناچار ہو رخصت جو منگا بھیجی تو بولا
میں کیا کروں جو میرؔ جی جاتے ہیں سدھاریں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |