کرے کیا کہ دل بھی تو مجبور ہے
Appearance
کرے کیا کہ دل بھی تو مجبور ہے
زمیں سخت ہے آسماں دور ہے
جرس راہ میں جملہ تن شور ہے
مگر قافلے سے کوئی دور ہے
تمنائے دل کے لیے جان دی
سلیقہ ہمارا تو مشہور ہے
نہ ہو کس طرح فکر انجام کار
بھروسہ ہے جس پر سو مغرور ہے
پلک کی سیاہی میں ہے وہ نگاہ
کسو کا مگر خون منظور ہے
دل اپنا نہایت ہے نازک مزاج
گرا گر یہ شیشہ تو پھر چور ہے
کہیں جو تسلی ہوا ہو یہ دل
وہی بے قراری بدستور ہے
نہ دیکھا کہ لوہو تھنبا ہو کبھو
مگر چشم خوں بار ناسور ہے
تنک گرم تو سنگ ریزے کو دیکھ
نہاں اس میں بھی شعلۂ طور ہے
بہت سعی کریے تو مر رہیے میرؔ
بس اپنا تو اتنا ہی مقدور ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |