Jump to content

کریں گے سب یہ دعویٰ نقد دل جو ہار بیٹھے ہیں

From Wikisource
کریں گے سب یہ دعویٰ نقد دل جو ہار بیٹھے ہیں
by ظریف لکھنوی
318004کریں گے سب یہ دعویٰ نقد دل جو ہار بیٹھے ہیںظریف لکھنوی

کریں گے سب یہ دعویٰ نقد دل جو ہار بیٹھے ہیں
خفیفہ میں تمہارے عاشق نادار بیٹھے ہیں

عجب کیا عاشقوں کو دل میں یہ معشوق کہتے ہوں
یہ کیوں گھر گھیر کر میرا خدا کی مار بیٹھے ہیں

شب فرقت کا اک دریائے غم ہے بیچ میں حائل
جو میں اس پار بیٹھا ہوں تو وہ اس پار بیٹھے ہیں

کوئی ہے اطلاع اس وقت کر دے جا کے تھانے پر
وہ میرے قتل پر کھینچے ہوئے تلوار بیٹھے ہیں

سفیدی خانۂ دل میں سیہ کاروں کے پھیریں گے
نہیں منبر پہ واعظ پاڑ پر معمار بیٹھے ہیں

پکڑ کر کان اپنا درس گاہ عشق میں عاشق
ہزاروں بار اٹھے ہیں ہزاروں بار بیٹھے ہیں

کہا کرتے تھے والد قیس کے فرط محبت میں
نہیں معلوم کس جنگل میں بر خوردار بیٹھے ہیں

ظریفؔ اب فائدہ کیا شاعروں کو سردی کھانے سے
غزل ہم پڑھ چکے گھر جائیں کیوں بیکار بیٹھے ہیں


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.