کرچیں اور کرچیاں
’’ہندوستان کے مشہور نڈر نیتا کے داخلے پر کشمیر میں پابندی عائد کر دی گئی ہے۔‘‘
’’اور یہ طرفہ تماشہ ہے کہ یہ مشہور اور نڈر لیڈر خود کشمیری ہیں۔‘‘
’’سعادت حسن منٹو بھی کشمیری ہے۔‘‘
’’اور اس پر تین مقدمے فحاشی کے الزام میں چل چکے ہیں۔‘‘
’’سیاست بھی فحاشی ہے۔‘‘
’’ہندوستان کے مشہور اور نڈر لیڈر پر زیردفعہ ۲۹۲ تعزیرات ہند مقدمہ چلانا چاہیئے۔‘‘
’’اور سیشن میں بری کر دینا چا ہیئے۔‘‘
’’اس لئے کہ ابھی تک فحاشی کا صحیح تعین نہیں ہوا۔‘‘
’’اور نہ ابھی تک اس کی صحیح اور قطعی تعریف ہی دریافت ہوئی ہے۔‘‘
’’ہندوستان کے مشہور اور نڈر نیتا جو کشمیری ہیں۔‘‘
’’زندہ باد!‘‘
’’سعادت حسن منٹو۔‘‘
’’ہندوستان کے مشہور نڈر اور جذباتی لیڈر نے کشمیر میں اپنے داخلے کی پابندی کے باوجود دھاوا بول دیا۔‘‘
’’ڈوگرہ حکومت ہشیار باش۔‘‘
’’با ادب، باملاحظہ، ہوشیار۔۔۔ نگاہیں روبرو۔‘‘
’’راشٹر پتی کی سواری آتی ہے۔‘‘
’’ہم ڈوگرے نہیں۔۔۔ دو گُرے ہیں۔۔۔ ہمارے دو گرہیں۔‘‘
’’تم دوگرے ہو۔۔۔ مگر گورے نہیں جو ہزار گرے تھے۔۔۔ تم مجھے نہیں روک سکتے۔‘‘
’’ہم تو نہیں روک سکتے۔۔۔ لیکن یہ سنگین اور کرچیں روک سکتی ہیں، جو بنائی اسی لئے گئی ہیں۔‘‘
’’یہ کیوں بنائی گئی ہیں؟‘‘
’’معلوم نہیں۔۔۔ جنہوں نے بنائی ہیں ان سے پوچھو۔‘‘
’’تم کشمیری ہو؟‘‘
’’ہمیں معلوم نہیں۔۔۔ ہم صرف ڈوگرے ہیں۔۔۔ ہم صرف کرچیں ہیں۔۔۔ ہم صرف وہ ہیں جو ہم نہیں ہیں، لیکن ہمیں تمہارے وجود نے جنم دیا ہے۔۔۔ تم چلے جاؤ۔۔۔ واپس الہ آباد چلے جاؤ جہاں کے امرود بہت مشہور ہیں۔۔۔ ہم اپنی تیز تیز کرچوں سے انہیں کاٹ کاٹ کر کھاتے رہے ہیں۔۔۔ جاؤ، واپس چلے جاؤ، ایسا نہ ہو کہ ہم تمہیں بھی الہ آبادی امرود سمجھ کر کھا جائیں۔‘‘
’’میں بڑا جذباتی آدمی ہوں۔۔۔ میں امرود بھی بن جاؤں گا۔۔۔ مگر یہاں نمرود کی خدائی نہیں دیکھوں گا۔۔۔ تمہارا مہاراج نمرود ہے۔۔۔ الہ آباد کا امرود ہونے کا اسے فخر کبھی حاصل نہیں ہو سکتا۔۔۔ میں کشمیری ہوں۔ بگو گوشہ ہوں۔ گلاس ہوں، سیب ہوں۔۔۔ میں بڑی سے بڑی قیمتی شے ہوں یہاں سے باہر نکل کر تمام ہندوستان سے پوچھو کہ میں کون ہوں، میرا باپ موتی تھا۔۔۔ بڑا نایاب موتی۔۔۔ کیا تم اس کی آب و تاب بھول گئے ہو؟‘‘
’’جو بندھ گیا سو موتی۔۔۔ کیا وہ بندھ گیا تھا؟‘‘
’’وہ بندھا نہیں تھا، کئی دفعہ باندھا گیا تھا۔۔۔ اس کو پیٹا بھی گیا تھا۔‘‘
’’تو وہ موتی نہیں تھا۔۔۔؟ ہم نے اس کی جیوتی کبھی نہیں دیکھی۔‘‘
’’تم نے اس کی جوتی بھی نہیں دیکھی اور نہ تم اس لائق ہو کہ اسے دیکھو۔‘‘
’’پکڑ لو۔‘‘
’’پکڑ لو۔‘‘
’’نہیں سنگینوں کی روک پر اس کو روک لو۔‘‘
’’میں اس کی پروا نہیں کرتا۔‘‘
’’اٹھاؤ اس سر پھرے کو، موٹر میں ڈالو اور کشمیر کی سرحد سے باہر چھوڑ آؤ۔‘‘
’’ہاں۔۔۔ آدمی برا نہیں۔۔۔ حالانکہ باتیں بہت بری کرتا ہے۔‘‘
’’جو ہمیں نہیں سکھائی گئیں۔‘‘
’’پکڑو۔‘‘
’’ڈالو موٹر میں۔‘‘
’’اور چھوڑ آؤ سرحد پار۔‘‘
’’ہندوستان کے مشہور نڈر اور جذباتی لیڈر کو پکڑو۔۔۔ بڑی احتیاط کے ساتھ۔۔۔ جس طرح کہ تم بچے کو اٹھاتے ہو، اور یوں سمجھو کہ تم اسے موٹر میں نہیں بلکہ ایک جھولے میں ڈال رہے ہو۔۔۔ جھولا جھلاتے ہوئے اسے وہیں چھوڑ آؤ جہاں سے اس نے ہماری نیند حرام کرنے کی ٹھانی تھی۔۔۔ ہم ڈوگرے ہیں۔‘‘
’’ہم دوگرے ہیں۔‘‘
’’ہم ہری سنگھ ہیں۔‘‘
’’ہم نے رم پی ہوئی ہے۔‘‘
’’اس لئے ہم۔۔۔ با ادب ہیں، با ملاحظہ ہیں۔۔۔ ہوشیار ہیں۔‘‘
’’راشٹر پتی کی سواری واپس کرو۔‘‘
’’لو بھئی تقسیم ہو گیا۔‘‘
’’کیا تقسیم ہو گیا؟‘‘
’’برصغیر!‘‘
’’برصغیر؟‘‘
’’کس نے تقسیم کیا؟‘‘
’’معاف کرنا میں ہندو ہوں۔۔۔ میرا ملک اب یہ ہندوستان ہے۔‘‘
’’کون سا ہندوستان؟‘‘
’’جسے ریڈکلف نے ہمارے بہی کھاتے میں درج کیا ہے۔‘‘
’’تو اس میں معافی کی کیا ضرورت تھی؟‘‘
’’ضرورت تھی، مت بولو۔۔۔ اب تم ہندو ہو۔۔۔ تمہاری زبان ہندی ہونی چا ہیئے۔‘‘
’’مگر ہمارے ملک کے لنگوٹی پوش نیتا نے کہا تھا۔۔۔‘‘
’’وہ مارا جائے گا۔‘‘
’’اسے کون مار سکتا ہے۔۔۔؟‘‘
’’ہم ماریں گے۔‘‘
’’تم؟‘‘
’’ہماری قوم میں سے کوئی بھی آدمی اٹھے گا اور ایسے تفرقہ پرداز آدمی کو ہلاک کر دے گا۔‘‘
’’یہ ضرور ہونا چا ہیئے۔‘‘
’’یہ ضرور ہوگا۔‘‘
’’کب؟‘‘
’’ہو جائے گا اپنے وقت پر۔‘‘
’’یہ وقت کب آئے گا؟‘‘
’’وقت کے آنے اور لے جانے کے سوال پر کئی دفعہ غور ہو چکا ہے، مگر سنا ہے کہ یہ ارباب حکومت کے اختیار کی بات نہیں۔۔۔ سنا ہے کہ ایک رب ہے جو اس محکمے کا افسر اعلیٰ ہے۔‘‘
’’وہ کسی کو چوں و چرا کی اجازت نہیں دیتا اور اپنی من مانی کرتا ہے۔‘‘
’’وہ لائق تعزیر ہے۔‘‘
’’اس کے لئے ہماری تعزیرات ہند بالکل بے اثر ہے۔‘‘
’’یہ کیا ہو رہا ہے بھائی صاحب؟‘‘
’’السلام علیکم!‘‘
’’وعلیکم السلام!‘‘
’’دنیا کی سب سے بڑی اسلامی حکومت وجود میں آ رہی ہے۔‘‘
’’سنا ہے کہ بگل کافی بجے تھے۔۔۔ پٹاخے بھی چھوٹے تھے۔‘‘
’’شبرات تھی؟‘‘
’’ہر انقلاب ایک شبرات ہوتا ہے۔‘‘
’’لیکن ہر شبرات انقلاب نہیں ہوتی۔‘‘
’’تم بکواس کرتے ہو۔۔۔ تم۔۔۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ابھی تک سامراجی بندھنوں میں گرفتار ہو۔‘‘
’’تم بورژ وائی ہو۔۔۔ تمہیں پرولتاریوں سے کوئی نسبت نہیں۔‘‘
’’چہ نسبت خاک را با عالم پاک۔‘‘
’’یہ سعادت حسن منٹو تو نہیں بول رہا۔‘‘
’’جی نہیں۔۔۔ اسے تو عرصہ ہوا مرے ہوئے۔۔۔ اس کا ٹھنڈا گوشت بول رہا ہے۔‘‘
‘‘ کہاں سے؟‘‘
’’قبر سے۔‘‘
’’ایسا کیونکر ہو سکتا ہے۔۔۔ اس کے خلاف تو فتوے دے چکے ہیں کہ کافر ہے۔۔۔ کافر کی قبر کیسے بن سکتی ہے؟‘‘
’’خود بخود بن گئی ہے۔‘‘
’’غلط ہے۔۔۔ ہر چہار اکناف اعلان کرو کہ یہ اس خبیث کی قبر نہیں۔۔۔ ۔ کسی نامعلوم درویش کی ہے، جو صرف اندرونی طور پر فحش تھا اور خفیہ انداز میں اپنے اس مرض کا علاج کرتا رہا تھا۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔‘‘
’’ٹھیک ہے!‘‘
’’بہت ہی ٹھیک طور پر ٹھیک ہے۔‘‘
’’خدا بخشش کرنے والا ہے۔‘‘
’’خدا منٹو کو بھی اس نعمت غیر مترقبہ سے مستفیض فرمائے۔‘‘
’’آمین!‘‘
’’ثُم آمین!‘‘
’’یہ تو جہنم نہیں۔۔۔ فردوس ہے!‘‘
’’اگر فردوس برروئے زمیں است ہمیں است وہمیں است وہمیں است۔‘‘
’’دغا دار ڈرا۔‘‘
’’اس کا کیا مطلب ہوا؟‘‘
’’مطلب اس کا وہی کچھ ہے، جو ہم سب کا مطلب ہے۔‘‘
’’تو ہم ضرور کشمیر لے لیں گے۔‘‘
’’ضرور۔۔۔‘‘
’’یو این او فیصلہ کرے گی۔‘‘
’’کس کا؟‘‘
’’ہماری قسمت کا۔‘‘
’’پہلے تو ایسے فیصلے خدا کیا کرتا تھا۔‘‘
’’اب ارضی جنت کا فیصلہ ارضی ’’دیوتا‘‘ کرے گا۔‘‘
’’وہ ارضی ’’دیوتا‘‘ کون ہے۔‘‘
’’اس کے کئی نام ہیں۔۔۔ اس کا نام رحیم بھی ہو سکتا ہے، رام بھی ہو سکتا ہے۔۔۔ یعنی کہ اگر اہم ہوا۔۔۔ اگر دونوں قوموں نے۔۔۔ دونوں ملکوں نے اسے تسلیم کیا تو۔۔۔‘‘
’’ورنہ؟‘‘
’’ورنہ۔۔۔ سب بکواس ہے۔‘‘
’’اس کا نام مت لو۔۔۔ ہم اسے مردود قرار دے چکے ہیں۔‘‘
’’مرحبا!‘‘
’’مرحبا!‘‘
’’زندہ باد!‘‘
’’جنت کے ہم حقدار ہیں۔‘‘
’’یقیناً۔۔۔ اس کا ہندی مترادف کیا ہے۔۔۔ یہ نیتا جی، آل انڈیا ریڈیو سے پوچھ کے بتائیں گے۔۔۔ اس کا مطلب ان کی سمجھ میں آئے گا یا نہیں۔ اس کے متعلق انہوں نے ابھی تک کچھ نہیں کہا۔‘‘
’’جنت کو ہم سورگ کہتے ہیں نیتا جی!‘‘
’’میں نے اس کا نام آج سنا ہے۔‘‘
’’یہ بڑی اچرج بات ہے۔‘‘
’’یہ ’اچرج‘ بھی میں نے آج ہی سنا ہے۔‘‘
’’یہ ریڈیائی زبان ہے۔۔۔ وہ زبان جو آپ کے ہوتے ہوئے یہاں پل رہی ہے۔‘‘
’’میں بڑا بد زبان ہوں۔۔۔ مجھے اس زبان سے کوئی سروکار نہیں۔‘‘
’’یہ سروکار کیا ہوتا ہے؟‘‘
’’اس سے سرکار کا کوئی تعلق نہیں۔۔۔ اس سے صرف میرا تعلق رہا ہے۔۔۔ میرے سارے خاندان کا تعلق۔۔۔ لیکن تم ان سب پر لعنت بھیجو۔۔۔ لیکن میں تم سے صاف الفاظ میں کہنا چاہتا ہوں کہ مجھے کشمیر چاہیئے۔۔۔ اس لئے کہ میں وہاں پیدا ہوا تھا۔‘‘
’’منٹو وہاں پیدا نہیں ہوا۔‘‘
’’دنیا کا کوئی انسان وہاں پیدا نہیں ہوا۔‘‘
’’اگر کوئی انسان پیدا ہوتا رہا ہے تو وہ ہمیشہ کشمیر سے باہر پیدا ہوتا رہا ہے۔‘‘
’’اس کی وجہ؟‘‘
’’اس کا باعث؟‘‘
’’خود کشمیر سے پوچھو۔‘‘
’’خود پیدا ہونے والے سے پوچھو۔‘‘
’’خود پیدا کرنے والے سے پوچھو۔‘‘
’’یہ بڑی عجیب و غریب بات ہے۔‘‘
’’اس عجیب و غریب بات کا دوسرا نام یو این او ہے۔‘‘
’’یہ بھی کافی عجیب و غریب نام ہے۔‘‘
’’عجیب و غریب کا نام ہی سیاست ہے۔‘‘
’’اور اس کا دوسرا نام سعادت!‘‘
’’ایں سعادت بزور بازو نیست تانہ بخشد۔۔۔ خدائے کشمیری!‘‘
’’لیکن افسوس کہ وہ ’ہاتو‘ نہیں۔‘‘
’’ڈاکٹر گراہم زندہ باد!‘‘
’’مردہ باد!‘‘
’’سالا کچھ کرتا ہی نہیں ہے۔‘‘
’’نہیں یار۔۔۔ رپورٹیں لکھتا ہے۔۔۔ اور یہ بڑا مشکل کام ہے۔‘‘
’’مشکلیں زندہ باد!‘‘
’’آزاد کشمیر زندہ باد!‘‘
’’جنت کے بھی ٹکڑے ہوئے ہیں۔۔۔‘‘
’’آدھا ہمارا۔۔۔ آدھا ان کا۔‘‘
’’نہیں ہم پورا چاہتے ہیں۔‘‘
’’ثابت و سالم جنت۔‘‘
’’ حقّا کہ با عقوبت دوزخ برابر است
رفتن بہ پائے مردے ہمسایہ در بہشت‘‘
’’یہ کون ہے؟‘‘
’’منٹو؟‘‘
’’نہیں۔۔۔ شیخ سعدی۔۔۔ جو اپنے وقت کا منٹو تھا۔‘‘
This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator. |