کرو نہ دیر جہاں میں جہاں سے آگے چلو
Appearance
کرو نہ دیر جہاں میں جہاں سے آگے چلو
یہاں گمان خطر ہے قدم بڑھائے چلو
یہاں فریب نشیب و فراز اکثر ہے
خدا کے واسطے اتنا نہ منہ اٹھائے چلو
شکستہ پا ہوں کہیں ساتھ سے نہ رہ جاؤں
مجھے بھی ہاتھ ذرا دوستو لگائے چلو
ابھی تو حسن عمل کا زمانہ باقی ہے
وہاں کی بگڑی ہوئی کچھ یہیں بنائے چلو
ادھر ادھر کہیں بھر کر ترارہ جا نہ پڑے
سمند عمر رواں کو ذرا دبائے چلو
عدم میں ترسو گے درد جگر کو اے تسلیمؔ
جو ہو سکے کوئی سینہ پہ تیر کھائے چلو
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |