کروں میں کہاں تک مدارات روز
Appearance
کروں میں کہاں تک مدارات روز
تمہیں چاہیئے ہے وہی بات روز
مجھے گھر کے لوگوں کا ڈر ہے کمال
کروں کس طرح سے ملاقات روز
مرا تیرا چرچا ہے سب شہر میں
بھلا آؤں کیونکر میں ہر رات روز
کہاں تک سنوں کان تو اڑ گئے
تری سنتے سنتے حکایات روز
گئے ہیں مرے گھر میں سب تجھ کو تاڑ
کیا کر نہ رنگیںؔ اشارات روز
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |