کرتے ہیں شوق دید میں باتیں ہوا سے ہم
کرتے ہیں شوق دید میں باتیں ہوا سے ہم
جاتے ہیں کوئے یار میں پہلے صبا سے ہم
پیچھے کہیں رہے نہیں آہ رسا سے ہم
جاتے ہیں کوئے یار میں پہلے صبا سے ہم
ایذا کی اپنی فکر کریں گے دوا سے ہم
ڈھونڈیں گے کوئی موت کا نسخہ شفا سے ہم
زاہد برا نہ مانیں گے اس بد دعا سے ہم
ہوں بت پرست چاہتے ہیں یہ خدا سے ہم
الجھیں گے ایک بار تو زلف دوتا سے ہم
سودائی ہوں سڑی ہوں تمہاری بلا سے ہم
تیغ نگہ نہ تیر مژہ نے کیا ہلاک
ہاں مر گئے ہیں آپ ہی اپنی قضا سے ہم
نا قدر سے ہی قدر کی امید ہے عبث
او بے وفا خجل ہوئے اپنی وفا سے ہم
گھر جا کے ان کے روگ لگا لائے عشق کا
بیمار ہو کے آئے ہیں دار الشفا سے ہم
آب حیات خضر و سکندر کو چاہئے
ساقی فقط شراب کے ہیں اک پیا سے ہم
بولے مسیح دیکھ کے بیمار عشق کو
مجبور ہیں اسی مرض لا دوا سے ہم
جھیلی ہوئی ہیں عشق میں لاکھوں مصیبتیں
ڈرتے نہیں ہے آپ کے جور و جفا سے ہم
گھر میں حضور کے ہمیں سونا نصیب ہو
آئے ہیں مال مارنے دولت سرا سے ہم
گلزار ہے شہیدوں کا جنت کا ہم سواد
جائیں گے تو نہ آئیں گے پھر کربلا سے ہم
قسمت کا اپنی پیچ ہوا گیسوؤں کا پیچ
بدلیں سیاہ طالع ظل ہما سے ہم
دل میں ترے اثر نہ ہوا عرش ہل گیا
نادم ہیں نا رسائی آہ رسا سے ہم
اچھا ہوا نہ دفن ہوئی نعش بعد مرگ
کیا مشت استخواں کو چھپاتے ہما سے ہم
سوتے نہیں ہیں رات کو بھی ہم تو چین سے
کرتے ہیں مہرؔ انس جو اک مہ لقا سے ہم
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |