کدھر جائیے اور کہاں بیٹھیے
Appearance
کدھر جائیے اور کہاں بیٹھیے
پرچتا نہیں دل جہاں بیٹھیے
میں دیکھا تمہیں خوب پردے میں اب
ذرا اور ہو کر نہاں بیٹھیے
کھڑے دیکھتے کیا ہو پھر آئیے
کرم کیجیے مہرباں بیٹھیے
ابھی سے کہاں اٹھ چلے کوئی دم
غنیمت ہے صحبت میاں بیٹھیے
ترے ہاتھوں سے اے جفائے فلک
بتا تو ہی چھپ کر کہاں بیٹھیے
بٹھایا مجھے تم نے زنداں میں خوب
میں بیٹھا بس اب دوستاں بیٹھیے
تم آنکھوں میں کیا بیٹھتے ہو مری
بہ پہلوئے دل مثل جاں بیٹھیے
نہیں بیٹھنے کی تمہارے وہ جا
ادھر آئیے اب یہاں بیٹھیے
نہ پہنچوں گے منزل کو تم مصحفیؔ
گیا دور اب کارواں بیٹھیے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |