Jump to content

کتے کی دعا

From Wikisource
کتے کی دعا (1950)
by سعادت حسن منٹو
325211کتے کی دعا1950سعادت حسن منٹو

’’آپ یقین نہیں کریں گے مگر یہ واقعہ جو میں آپ کو سنانے والا ہوں، بالکل صحیح ہے۔‘‘ یہ کہہ کرشیخ صاحب نے بیڑی سلگائی۔ دو تین زور کے کش لے کر اسے پھینک دیا اور اپنی داستان سنانا شروع کی۔ شیخ صاحب کے مزاج سے ہم واقف تھے، اس لیے ہم خاموشی سے سنتے رہے۔ درمیان میں ان کو کہیں بھی نہ ٹوکا۔

آپ نے واقعہ یوں بیان کرنا شروع کیا، ’’گولڈی میرے پاس پندرہ برس سے تھا۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے۔۔۔ اس کا رنگ سنہری مائل بھوسلا تھا۔ بہت ہی حسین کتا تھا ۔جب میں صبح اس کے ساتھ باغ کی سیر کو نکلتا تو لوگ اس کو دیکھنے کے لیے کھڑے ہو جاتے تھے۔ لارنس گارڈن کے باہر میں اسے کھڑا کردیتا،’’گولڈی کھڑے رہنا یہاں۔ میں ابھی آتا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر میں باغ کے اندر چلا جاتا۔ گھوم پھر کر آدھے گھنٹے کے بعد واپس آتا تو گولڈی وہیں اپنے لمبے لمبے کان لٹکائے کھڑا ہوتا۔

اسپیشل ذات کے کتے عام طورپربڑے اطاعت گزار اور فرماں بردار ہوتے ہیں مگر میرے گولڈی میں یہ صفات بہت نمایاں تھیں۔ جب تک اس کو اپنے ہاتھ سے کھانا نہ دوں نہیں کھاتا تھا۔ دوست یاروں نے میرا مان توڑنے کے لیے لاکھوں جتن کیے مگر گولڈی نے ان کے ہاتھ سے ایک دانہ تک نہ کھایا۔

ایک روز اتفاق کی بات ہے کہ میں لارنس کے باہر اسے چھوڑ کر اندر گیا تو ایک دوست مل گیا۔ گھومتے گھومتے کافی دیر ہوگئی۔ اس کے بعد وہ مجھے اپنی کوٹھی لے گیا۔ مجھے شطرنج کھیلنے کا مرض تھا۔ بازی شروع ہوئی تو میں دنیا مافیہابھول گیا۔ کئی گھنٹے بیت گئے۔ دفعتاً مجھے گولڈی کا خیال آیا۔ بازی چھوڑ کر لارنس کے گیٹ کی طرف بھاگا۔ گولڈی وہیں اپنے لمبے لمبے کان لٹکائے کھڑا تھا۔ مجھے اس نے عجیب نظروں سے دیکھا جیسے کہہ رہا ہے، ’’دوست، تم نے آج اچھا سلوک کیا مجھ سے۔‘‘

میں بے حد نادم ہوا۔ چنانچہ آپ یقین جانیں میں نے شطرنج کھیلنا چھوڑ دی۔۔۔ معاف کیجیے گا، میں اصل واقعے کی طرف ابھی تک نہیں آیا۔ دراصل گولڈی کی بات شروع ہوئی تو میں چاہتا ہوں کہ اس کے متعلق مجھے جتنی باتیں یاد ہیں آپ کو سنا دوں۔۔۔ مجھے اس سے بے حد محبت تھی۔ میرے مجرد رہنے کا ایک باعث اس کی محبت بھی تھی ۔جب میں نے شادی نہ کرنے کا تہیہ کیا تواس کو خصی کرادیا۔۔۔ آپ شاید کہیں کہ میں نے ظلم کیا، لیکن میں سمجھتا ہوں محبت میں ہر چیز روا ہے۔۔۔ میں اس کی ذات کے ساتھ اور کسی کو وابستہ دیکھنا نہیں چاہتا تھا۔

کئی بار میں نے سوچا اگر میں مر گیا تو یہ کسی اور کے پاس چلا جائے گا۔کچھ دیر میری موت کا اثر اس پر رہے گا۔ اس کے بعد مجھے بھول کر اپنے نئے آقا سے محبت کرنا شروع کردے گا۔ جب میں یہ سوچتا تو مجھے بہت دکھ ہوتا۔ لیکن میں نے یہ تہیہ کرلیا تھا کہ اگرمجھے اپنی موت کی آمد کا پورا یقین ہوگیا تو میں گولڈی کو ہلاک کردوں گا۔ آنکھیں بند کرکے اسے گولی کا نشانہ بنا دوں گا۔

گولڈی کبھی ایک لمحے کے لیے مجھ سے جدا نہیں ہوا تھا۔ رات کو ہمیشہ میرے ساتھ سوتا۔ میری تنہا زندگی میں وہ ایک روشنی تھی۔ میری بے حد پھیکی زندگی میں اس کا وجود ایک شیرینی تھا۔ اس سے میری غیر معمولی محبت دیکھ کر کئی دوست مذاق اڑاتے تھے، ’’شیخ صاحب گولڈی کتیا ہوتی تو آپ نے ضرور اس سے شادی کر لی ہوتی۔‘‘

ایسے ہی کئی اور فقرے کسے جاتے لیکن میں مسکرا دیتا۔ گولڈی بڑا ذہین تھا۔ اس کے متعلق جب کوئی بات ہوتی تو فوراً اس کے کان کھڑے ہو جاتے تھے۔ میرے ہلکے سے ہلکے اشارے کو بھی وہ سمجھ لیتا تھا۔ میرے موڈ کے سارے اتار چڑھاؤ اسے معلوم ہوجاتے تھے۔ اگر کسی وجہ سے رنجیدہ ہوتا تووہ میرے ساتھ چہلیں شروع کردیتا ،مجھے خوش کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرتا۔

ابھی اس نے ٹانگ اٹھا کر پیشاب کرنا نہیں سیکھا تھا ،یعنی ابھی کم سن تھا کہ اس نے ایک برتن کو جو کہ خالی تھا، تھوتھنی بڑھا کرسونگھا۔ میں نے اسے جھڑکا تو دم دبا کروہیں بیٹھ گیا۔۔۔ پہلے اس کے چہرے پر حیرت سی پیدا ہوئی تھی کہ ہیں یہ مجھ سے کیا ہوگیا۔ دیر تک گردن نیوڑھائے بیٹھا رہا،جیسے ندامت کے سمندر میں غرق ہے۔ میں اٹھا۔ اٹھ کر اس کو گود میں لیا، پیارکیا،پچکارا۔ بڑی دیر کے بعد جا کر اس کی دم ہلی۔۔۔ مجھے بہت ترس آیا کہ میں نے خواہ مخواہ اسے ڈانٹا کیوں کہ اس روز رات کو غریب نے کھانے کو منہ نہ لگایا۔ وہ بڑاحساس کتا تھا۔

میں بہت بے پروا آدمی ہوں۔ میری غفلت سے اس کو ایک بار نمونیہ ہوگیا، میرے اوسان خطا ہوگئے۔ ڈا کٹروں کے پاس دوڑا۔ علاج شروع ہوا، مگر اثر ندارد۔ متواتر سات راتیں جاگتارہا۔ اس کو بہت تکلیف تھی۔ سانس بڑی مشکل سے آتا تھا۔ جب سینے میں درد اٹھتا تو وہ میری طرف دیکھتا جیسے یہ کہہ رہا ہے، ’’فکر کی کوئی بات نہیں، میں ٹھیک ہو جاؤں گا۔‘‘

کئی بار میں نے محسوس کیا کہ صرف میرے آرام کی خاطر اس نے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے کہ اس کی تکلیف کچھ کم ہے ،وہ آنکھیں میچ لیتا، تاکہ میں تھوڑی دیر آنکھ لگالوں۔ آٹھویں روز خدا خدا کرکے اس کا بخار ہلکا ہوا اور آہستہ آہستہ اتر گیا۔ میں نے پیار سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا تو مجھے ایک تھکی تھکی سی مسکراہٹ اس کی آنکھوں میں تیرتی نظر آئی۔

نمونیے کے ظالم حملے کے بعد دیر تک اس کو نقاہت رہی۔ لیکن طاقت ور دواؤں نے اسے ٹھیک ٹھاک کردیا۔ ایک لمبی غیر حاضری کے بعد لوگوں نے مجھے اس کے ساتھ دیکھا تو طرح طرح کے سوال کرنے شروع کیے، ’’عاشق و معشوق کہاں غائب تھے اتنے دنوں؟‘‘

’’آپس میں کہیں لڑائی تو نہیں ہوگئی تھی؟‘‘

’’کسی اور سے تو نظر نہیں لڑ گئی تھی گولڈی کی۔‘‘

میں خاموش رہا۔ گولڈی یہ باتیں سنتا تو ایک نظر میری طرف دیکھ کر خاموش ہو جاتا کہ بھونکنے دو کتوں کو۔ وہ مثل مشہور ہے۔ کند ہم جنس باہم جنس پرواز۔ کبوتر بہ کبوتر باز بہ باز۔لیکن گولڈی کو اپنے ہم جنسوں سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ اس کی دنیا صرف میری ذات تھی۔ اس سے باہر وہ کبھی نکلتا ہی نہیں تھا۔

گولڈی میرے پاس نہیں تھا، جب ایک دوست نے مجھے اخبار پڑھ کر سنایا۔ اس میں ایک واقعہ لکھا تھا۔ آپ سنیے بڑا دلچسپ ہے۔ امریکہ یا انگلستان مجھے یاد نہیں کہاں، ایک شخص کے پاس کتا تھا۔ معلوم نہیں کس ذات کا۔ اس شخص کا آپریشن ہونا تھا۔ اس کو ہسپتال لے گئے تو کتا بھی ساتھ ہولیا۔ اسٹریچر پر ڈال کر اس کو آپریشن روم میں لے جانے لگے تو کتے نے اندر جانا چاہا۔ مالک نے اس کو روکا اور کہا، باہر کھڑے رہو۔ میں ابھی آتا ہوں۔۔۔ کتا حکم سن کر باہر کھڑا ہوگیا۔ اندر مالک کا آپریشن ہوا، جو ناکام ثابت ہوا۔۔۔ اس کی لاش دوسرے دروازے سے باہر نکال دی گئی۔۔۔ کتا بارہ برس تک وہیں کھڑا اپنے مالک کا انتظار کرتا رہا۔ پیشاب۔ پاخانے کے لیے کچھ دیر وہاں سے ہٹتا۔۔۔ پھروہیں کھڑا ہو جاتا۔۔۔ آخر ایک روز موٹر کی لپیٹ میں آگیا۔ اور بری طرح زخمی ہوگیا مگر اس حالت میں بھی وہ خود کو گھسیٹتاہوا وہاں پہنچا، جہاں اس کے مالک نے اسے انتظار کرنے کے لیے کہا تھا۔ آخری سانس اس نے اسی جگہ لیا۔۔۔ یہ بھی لکھا تھا۔۔۔ کہ ہسپتال والوں نے اس کی لاش میں بھس بھر کے اس کو وہیں رکھ دیا ہے جیسے وہ اب بھی اپنے آقا کے انتظار میں کھڑا ہے۔

میں نے یہ داستان سنی تو مجھ پر کوئی خاص اثر نہ ہوا۔ اول تو مجھے اس کی صحت ہی کا یقین نہ آیا، لیکن جب گولڈی میرے پاس آیا اور مجھے اس کی صفات کا علم ہوا تو بہت برسوں کے بعد میں نے یہ داستان کئی دوستوں کو سنائی۔ سناتے وقت مجھ پر ایک رقت طاری ہو جاتی تھی اور میں سوچنے لگتا تھا،’’میرے گولڈی سے بھی کوئی ایسا کارنامہ وابستہ ہونا چاہیے۔۔۔گولڈی معمولی ہستی نہیں ہے۔ ‘‘گولڈی بہت متین اور سنجیدہ تھا۔ بچپن میں اس نے تھوڑی شرارتیں کیں مگر جب اس نے دیکھا کہ مجھے پسند نہیں تو ان کو ترک کردیا۔ آہستہ آہستہ سنجیدگی اختیار کرلی جو تادمِ مرگ قائم رہی۔

’’میں نے تادمِ مرگ کہا ہے تو میری آنکھوں میں آنسو آگئے ہیں۔‘‘

شیخ صاحب رک گئے۔ ان کی آنکھیں نم آلود ہوگئی تھیں۔ ہم خاموش رہے۔ تھوڑے عرصے کے بعد انھوں نے رومال نکال کر اپنے آنسو پونچھے اور کہنا شروع کیا۔ ’’ یہی میری زیادتی ہے کہ میں زندہ ہوں۔۔۔ لیکن شاید اس لیے زندہ ہوں کہ انسان ہوں۔۔۔ مر جاتا تو شاید گولڈی کی توہین ہوتی۔۔۔ جب وہ مرا تو رو رو کر میرا برا حال تھا۔۔۔ لیکن وہ مرا نہیں تھا۔ میں نے اس کو مروا دیا تھا۔ اس لیے نہیں کہ مجھے اپنی موت کی آمد کا یقین ہوگیا تھا۔۔۔ وہ پاگل ہوگیا تھا۔ ایسا پاگل نہیں جیسا کہ عام پاگل کتے ہوتے ہیں۔ اس کے مرض کا کچھ پتہ ہی نہیں چلتا تھا۔ اس کو سخت تکلیف تھی۔ جان کنی کا سا عالم اس پر طاری تھا۔ ڈاکٹروں نے کہا اس کا واحد علاج یہی ہے کہ اس کو مروا دو۔ میں نے پہلے سوچا نہیں۔ لیکن وہ جس اذیت میں گرفتار تھا، مجھ سے دیکھی نہیں جاتی تھی۔ میں مان گیا ۔وہ اسے ایک کمرہ میں لے گئے جہاں برقی جھٹکا پہنچا کر ہلاک کرنے والی مشین تھی۔

میں ابھی اپنے نحیف دماغ میں اچھی طرح کچھ سوچ بھی نہ سکا تھا کہ وہ اس کی لاش لے آئے۔۔۔ میرےگولڈی کی لاش۔ جب میں نے اسے اپنے بازوؤں میں اٹھایا تو میرے آنسو ٹپ ٹپ اس کے سنہرے بالوں پر گرنے لگے۔ جو پہلے کبھی گرد آلود نہیں ہوئے تھے۔۔۔ ٹانگے میں اسے گھر لایا۔ دیر تک اس کو دیکھا کیا۔ پندرہ سال کی رفاقت کی لاش میرے بستر پر پڑی تھی۔۔۔ قربانی کا مجسمہ ٹوٹ گیا تھا۔ میں نے اس کو نہلایا۔۔۔ کفن پہنایا۔ بہت دیر تک سوچتا رہا کہ اب کیا کروں۔۔۔ زمین میں دفن کروں یا جلادوں۔

زمین میں دفن کرتا تو اس کی موت کا ایک نشان رہ جاتا۔ یہ مجھے پسند نہیں تھا۔ معلوم نہیں کیوں۔ یہ بھی معلوم نہیں کہ میں نے کیوں اس کو غرقِ دریا کرنا چاہا۔ میں نے اس کے متعلق اب بھی کئی بار سوچا ہےمگر مجھے کوئی جواب نہیں ملا۔۔۔ خیرمیں نے ایک نئی بوری میں اس کی کفنائی ہوئی لاش ڈالی۔۔۔ دھو دھا کر بٹے اس میں ڈالے اور دریا کی طرف روانہ ہوگیا۔

جب بیڑی دریا کے درمیان میں پہنچی اور میں نے بوری کی طرف دیکھا تو گولڈی سے پندرہ برس کی رفاقت و محبت ایک بہت ہی تیز تلخی بن کر میرے حلق میں اٹک گئی۔ میں نے اب زیادہ دیر کرنا مناسب نہ سمجھا۔ کانپتے ہوئے ہاتھوں سے بوری اٹھائی اور دریا میں پھینک دی۔ بہتے ہوئے پانی کی چادرپرکچھ بلبلے اٹھے اور ہوا میں حل ہوگئے۔

بیڑی واپس ساحل پر آئی۔ میں اتر کر دیر تک اس طرف دیکھتا رہا جہاں میں نے گولڈی کو غرقِ آب کیا تھا۔۔۔ شام کا دھندلکا چھایا ہوا تھا۔ پانی بڑی خاموشی سے بہہ رہا تھا جیسے وہ گولڈی کو اپنی گود میں سلا رہا ہے۔ ‘‘یہ کہہ کرشیخ صاحب خاموش ہوگئے۔ چند لمحات کے بعد ہم میں سے ایک نے ان سے پوچھا،’’ لیکن شیخ صاحب آپ تو خاص واقعہ سنانے والے تھے۔‘‘

شیخ صاحب چونکے،’’ اوہ معاف کیجیے گا۔ میں اپنی رو میں جانے کہاں سے کہاں پہنچ گیا۔۔۔ واقعہ یہ تھا کہ۔۔۔ میں ابھی عرض کرتا ہوں۔۔۔ پندرہ برس ہوگئے تھے ہماری رفاقت کو۔ اس دوران میں کبھی بیمار نہیں ہوا تھا۔ میری صحت ماشاء اللہ بہت اچھی تھی، لیکن جس دن میں نے گولڈی کی پندرھویں سالگرہ منائی۔ اس کے دوسرے دن میں نے اعضا شکنی محسوس کی۔ شام کو یہ اعضا شکنی تیز بخارمیں تبدیل ہوگئی۔ رات سخت بے چین رہا۔ گولڈی جاگتا رہا۔ ایک آنکھ بند کرکے دوسری آنکھ سے مجھے دیکھتا رہا۔ پلنگ پر سے اتر کر نیچے جاتا پھر آکر بیٹھ جاتا۔

زیادہ عمر ہو جانے کے باعث اس کی بینائی اور سماعت کمزور ہوگئی تھی لیکن ذرا سی آہٹ ہوتی تو وہ چونک پڑتا اور اپنی دھندلی آنکھوں سے میری طرف دیکھتا اور جیسے یہ پوچھتا، ’’یہ کیا ہو گیاہے تمہیں؟‘‘

اس کو حیرت تھی کہ میں اتنی دیرتک پلنگ پر کیوں پڑا ہوں، لیکن وہ جلدی ہی ساری بات سمجھ گیا۔ جب مجھے بستر پر لیٹے کئی دن گزر گئے تو اس کے سال خوردہ چہرے پر افسردہ چھا گئی۔ میں اس کو اپنے ہاتھ سے کھلایا کرتا تھا۔ بیماری کے آغاز میں تو میں اس کو کھانا دیتا رہا۔ جب نقاہت بڑھ گئی تو میں نے ایک دوست سے کہا کہ وہ صبح شام گولڈی کو کھانا کھلانے آجایا کرے۔ وہ آتا رہا مگر گولڈی نے اس کی پلیٹ کی طرف منہ نہ کیا۔ میں نے بہت کہا لیکن وہ نہ مانا۔ ایک مجھے اپنے مرض کی تکلیف تھی جو دورہونے ہی میں نہیں آتا تھا۔ دوسرے مجھے گولڈی کی فکر تھی جس نے کھانا پینا بالکل بند کردیا تھا۔

اب اس نے پلنگ پر بیٹھنا لیٹنا بھی چھوڑ دیا۔ سامنے دیوار کے پاس سارا دن اور ساری رات خاموش بیٹھا اپنی دھندلی آنکھوں سے مجھے دیکھتا رہتا۔اس سے مجھے اور بھی دکھ ہوا۔ وہ کبھی ننگی زمین پر نہیں بیٹھا تھا۔ میں نے اس سے بہت کہا لیکن وہ نہ مانا۔وہ بہت زیادہ خاموش ہو گیا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ غم و اندوہ میں غرق ہے۔ کبھی کبھی اٹھ کر پلنگ کے پاس آتا۔ عجیب حسرت بھری نظروں سے میری طرف دیکھتا اور گردن جھکا کر واپس دیوار کے پاس چلا جاتا۔

ایک رات لیمپ کی روشنی میں میں نے دیکھاکہ گولڈی کی دھندلی آنکھوں میں آنسو چمک رہے ہیں۔ اس کے چہرے سے حزن و ملال برس رہا تھا۔ مجھے بہت دکھ پہنچا۔ میں نے اسے ہاتھ کے اشارے سے بلایا۔ لمبے لمبے سنہرے کان ہلاتا وہ میرے پاس آیا۔ میں نے بڑے پیار سے کہا،’’گولڈی میں اچھا ہو جاؤں گا۔ تم دعا مانگو۔۔۔ تمہاری دعا ضرور قبول ہوگی۔‘‘

یہ سن کر اس نے بڑی اداس آنکھوں سے مجھے دیکھا، پھر سر اوپر اٹھا کر چھت کی طرف دیکھنے لگا جیسے دعا مانگ رہا ہے۔۔۔ کچھ دیر وہ اس طرح کھڑا رہا۔ میرے جسم پر جھرجھری سی طاری ہوگئی۔ ایک عجیب و غریب تصویر میری آنکھوں کے سامنے تھی۔ گولڈی سچ مچ دعا مانگ رہا تھا۔۔۔ میں سچ عرض کرتا ہوں وہ سرتاپا دعا تھا۔ میں کہنا نہیں چاہتا لیکن اس وقت میں نے محسوس کیا کہ اس کی روح خدا کے حضور پہنچ کر گڑگڑارہی ہے۔

میں چند ہی دنوں میں اچھا ہوگیا لیکن گولڈی کی حالت غیرہ ہوگئی۔ جب تک میں بستر پر تھا وہ آنکھیں بند کیے دیوار کے ساتھ خاموش بیٹھا رہا۔ میں ہلنے جلنے کے قابل ہوا تو میں نے اس کو کھلانے پلانے کی کوشش کی مگر بے سود۔ اس کو اب کسی شے سے دلچسپی نہیں تھی۔ دعا مانگنے کے بعد جیسے اس کی ساری طاقت زائل ہوگئی تھی۔

میں اس سے کہتا،میری طرف دیکھو گولڈی۔۔۔ میں اچھا ہوگیا ہوں۔۔۔ خدا نے تمہاری دعا قبول کرلی ہے، لیکن وہ آنکھیں نہ کھولتا۔ میں نے دو تین دفعہ ڈاکٹر بلایا۔ اس نے انجکشن لگائے پرکچھ نہ ہوا۔ ایک دن میں ڈاکٹر لے کر آیا تو اس کا دماغ چل چکا تھا۔میں اٹھا کر اسے بڑے ڈاکٹر کے پاس لے گیا اور اس کو برقی ضرب سے ہلاک کرادیا۔

مجھے معلوم نہیں بابر اور ہمایوں والا قصہ کہاں تک صحیح ہے۔۔۔ لیکن یہ واقعہ حرف بحرف درست ہے۔


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.