Jump to content

کب صبا سوئے اسیران قفس آتی ہے

From Wikisource
کب صبا سوئے اسیران قفس آتی ہے
by غلام علی ہمدانی مصحفی
316126کب صبا سوئے اسیران قفس آتی ہےغلام علی ہمدانی مصحفی

کب صبا سوئے اسیران قفس آتی ہے
کب یہ ان تک خبر آمد گل لاتی ہے

دختر رز کی ہوں صحبت کا مباشر کیوں کر
ابھی کمسن ہے بہت مرد سے شرماتی ہے

کیونکہ فربہ نہ نظر آوے تری زلف کی لٹ
جونک سی یہ تو مرا خون ہی پی جاتی ہے

جسم نے روح رواں سے یہ کہا تربت میں
اب مجھے چھوڑ کے تنہا تو کہاں جاتی ہے

کیا مگر اس نے سنا شہرۂ حسن اس گل کا
آنکھیں کحال سے نرگس بھی جو بنواتی ہے

لاکھ ہم شعر کہیں لاکھ عبارت لکھیں
بات وہ ہے جو ترے دل میں جگہ پاتی ہے

ہووے کس طرح دلیرانہ وہ عاشق سے دو چار
اپنے بھی عکس سے جو آنکھ کہ شرماتی ہے

مصحفیؔ کو نہیں کچھ وصف اضافی سے تو کام
شعر کہنا زبس اس کا صفت ذاتی ہے


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.