کب تلک ہم کو نہ آوے گا نظر دیکھیں تو
Appearance
کب تلک ہم کو نہ آوے گا نظر دیکھیں تو
کیسے ترساتا ہے یہ دیدۂ تر دیکھیں تو
عشق میں اس کے کہ گزرے ہیں سر و جان سے ہم
اپنی کس طور سے ہوتی ہے گزر دیکھیں تو
کر کے وہ جور و ستم ہنس کے لگا یہ کہنے
آہ و افغاں کا تری ہم بھی اثر دیکھیں تو
صبر ہو سکتا ہے کب ہم سے ولے مصلحتاً
آزمائش دل بیتاب کی کر دیکھیں تو
ڈھب چڑھے ہو مرے تم آج ہی تو مدت بعد
جائیں گے آپ کہاں اور کدھر دیکھیں تو
کس دلیری سے کرے ہے تو فدا جان اس پر
دل جانباز ترا ہم بھی ہنر دیکھیں تو
کیا مجال اپنی جو کچھ کہہ سکیں ہم تجھ سے اور
تجھ کو بھر کر نظر اے شوخ پسر دیکھیں تو
ہو چلیں خیرہ تو اختر شمری سے آنکھیں
شب ہماری بھی کبھی ہوگی سحر دیکھیں تو
عشق کے صدمے اٹھانے نہیں آساں حسرتؔ
کر سکے کوئی ہمارا سا جگر دیکھیں تو
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |