Jump to content

کبھی گیسو نہ بگڑے قاتل کے

From Wikisource
کبھی گیسو نہ بگڑے قاتل کے
by رشید لکھنوی
317355کبھی گیسو نہ بگڑے قاتل کےرشید لکھنوی

کبھی گیسو نہ بگڑے قاتل کے
ناز بردار ہیں مرے دل کے

مجھ کو اغیار سے بھی الفت ہے
کہ یہ کشتے ہیں میرے قاتل کے

اٹھے جاتے ہیں بزم عالم سے
آنے والے تمہاری محفل کے

ان کے در تک پہنچ کے مرتا ہوں
ڈوبتا ہوں قریب ساحل کے

داغ دل گھٹ رہے ہیں پیری میں
بجھ رہے ہیں چراغ محفل کے

ہے مسافر نواز تیغ تری
مجھ کو رخصت کیا گلے مل کے

اے رشیدؔ انسؔ تک تھے ہم شاعر
ہو گئے خاک حوصلے دل کے


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.