کبھی گیسو نہ بگڑے قاتل کے
Appearance
کبھی گیسو نہ بگڑے قاتل کے
ناز بردار ہیں مرے دل کے
مجھ کو اغیار سے بھی الفت ہے
کہ یہ کشتے ہیں میرے قاتل کے
اٹھے جاتے ہیں بزم عالم سے
آنے والے تمہاری محفل کے
ان کے در تک پہنچ کے مرتا ہوں
ڈوبتا ہوں قریب ساحل کے
داغ دل گھٹ رہے ہیں پیری میں
بجھ رہے ہیں چراغ محفل کے
ہے مسافر نواز تیغ تری
مجھ کو رخصت کیا گلے مل کے
اے رشیدؔ انسؔ تک تھے ہم شاعر
ہو گئے خاک حوصلے دل کے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |