کبھی خوں ہوتی ہوئے اور کبھی جلتے دیکھا
Appearance
کبھی خوں ہوتی ہوئے اور کبھی جلتے دیکھا
دل کو ہر بار نیا رنگ بدلتے دیکھا
جب یہ چاہا کہ لکھیں وصف صفائے رخ یار
صفحہ پر پائے قلم ہم نے پھسلتے دیکھا
مے میں یہ بات کہاں جو ترے دیدے میں ہے
جس کو دیکھا کہ گرا پھر نہ سنبھلتے دیکھا
اف رے سوز دل عاشق کہ لحد پر اس کے
سنگ مرمر صفت برف پگھلتے دیکھا
دل کے لینے میں یہ قدرت اسے اللہ نہ دے
جس کو مٹی کے کھلونے پہ مچلتے دیکھا
دل کا کیا رنگ ہے تم پھر بھی نہ سمجھے افسوس
چشمۂ چشم سے خوناب ابلتے دیکھا
ہے یہ ساقی کی کرامت کہ نہیں جام کے پاؤں
اور پھر بزم میں سب نے اسے چلتے دیکھا
واعظ و شیخ سبھی خوب ہیں کیا بتلاؤں
میں نے میخانے سے کس کس کو نکلتے دیکھا
پردہ کیوں کرتا ہے ناظمؔ ترے گھر آئے تھے
رات کو ہم نے انہیں بھیس بدلتے دیکھا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |