Jump to content

ڈر نہیں تھوکتے ہیں خون جو دکھ پائے ہوئے

From Wikisource
ڈر نہیں تھوکتے ہیں خون جو دکھ پائے ہوئے
by رشید لکھنوی
317346ڈر نہیں تھوکتے ہیں خون جو دکھ پائے ہوئےرشید لکھنوی

ڈر نہیں تھوکتے ہیں خون جو دکھ پائے ہوئے
لخت دل بن کے نکل جائیں گے غم کھائے ہوئے

دم نکلنا ہے دل زار کا ہے حال اخیر
نالے آتے ہیں لبوں تک مرے گھبرائے ہوئے

یہ بہانہ ہے مرے قتل پہ راضی نہیں تیر
غل مچاتی ہے کماں ہاتھوں کو پھیلائے ہوئے

ہم تو مر جائیں گے ہر گل پہ عدم میں بھی رشیدؔ
جاتے ہیں گلشن فانی کی ہوا کھائے ہوئے


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.