Jump to content

چہلم ہے اے محباں اس شاہ دوسرا کا

From Wikisource
چہلم ہے اے محباں اس شاہ دوسرا کا
by میر تقی میر
313532چہلم ہے اے محباں اس شاہ دوسرا کامیر تقی میر

چہلم ہے اے محباں اس شاہ دوسرا کا
جو آرزوے جاں تھا پیغمبر خدا کا
مذبوح دار و دستہ سب خنجر جفا کا
رہتا کوئی تو ہوتا غم اس کے کچھ عزا کا

آگے ہی مر گئے تھے اس کے جو تھے ہوادار
ماتم لے کون بیٹھے کون اس کا ہو عزادار
اک عابدیں سو اس کی ایذا کے سب روادار
بیمار تس کے اوپر محتاج وہ دوا کا

بھائی نہ تھا کہ روتا مردے پہ ٹک کھڑا ہو
اکبر نہ تھا کہ اس کو واں گور اور گڑھا ہو
قاسم نہ تھا کہ جس کا دل داغ ہوگیا ہو
وہ جان کر موا تھا احوال یہ چچا کا

وارث نہ غیر عابد سو مبتلا بلا میں
گردن میں طوق اس کے زنجیر اس کے پا میں
اک شور سا ہو اٹھتا رونے کا جب نسا میں
منھ دیکھ دیکھ روتا ہمشیر اور ما کا

کڑھنا بنا نہ اس پر دلخواہ عورتوں کو
مہلت کہاں کہ کہتے اپنی مصیبتوں کو
وارث موئے اٹھایا کیا کیا اذیتوں کو
رونا ہر ایک کو تھا اسباب میں ردا کا

خیمے کیے جلاکر سب خاک کے برابر
اہل حرم کے سر پر معجر نہ ایک چادر
پرسش کو کام کھنچتا ہوتا جو کوئی داور
اس طور گھر کو لوٹا دیتے ہیں جیسے ڈاکا

جور و ستم کی آندھی شدت سے آہ آئی
گلزار رشک وادی اک دم میں کر دکھائی
خاشاک و خار و خس نے واں سہل راہ پائی
ہوتا تھا جس چمن میں مشکل گذر صبا کا

ایسے ثبات پا سے مرنا بہت ہے مشکل
سو سو سیاہ دل تھے ایک ایک کے مقابل
رحمت برآں جواناں لعنت بہ جمع باطل
مر تو گئے وے سید پر کر گئے ہیں ساکا

آیا تھا کس گھڑی کا جو پھر نہ گھر گیا وہ
سر دے سر جہاں سے آخر گذر گیا وہ
یعنی کہ ہوکے بیکس ناچار مر گیا وہ
ٹھہرا رکھا تھا ان نے چارہ یہ انتہا کا

تیر و سناں کی بارش کرتا رہا نظارہ
دیکھا نہ آنکھ اٹھاکر کنبہ موا بھی سارا
بیٹے موئے تو ان نے زنہار دم نہ مارا
کیا کیا ستم اٹھائے پر راضی تھا رضا کا

جا سے گیا نہ اپنی ووہیں رہا شکیبا
کیا حوصلہ تھا یارب کیسا دل و جگر تھا
مرنا سبھوں کا دیکھا ان نے خموش یک جا
بولا نہ غیر ازیں کچھ چارہ نہیں قضا کا

نو گل چمن کے اپنے مرجھائے ان نے پائے
اشجار سرکشیدہ اکھڑے نظر میں آئے
پودھے جو تھے سو پھل سب حلق بریدہ لائے
پھر جانا خوب دیکھا یکبارگی ہوا کا

غربت کی سختی دیکھو اس بے وطن کو دیکھو
گرم آفتاب میں پھر سیر بدن کو دیکھو
عابد کے ہاتھ دیکھو یارو رسن کو دیکھو
نے پاس مصطفےٰؐ کا نے خوف مرتضےٰؓ کا

احمد کو سرکشی سے بالفرض وَی نہ مانو
حیدر کو بے تہی سے کچھ بھی نہ دل میں جانو
کلثوم اور یہ دھومیں دشت اور شہربانو
انصاف کوئی پوچھے تھا کون سی یہ جا کا

بہنوں کو پیٹنے کی مطلق ملی نہ فرصت
بیٹے کو راہ چلنا اس پر کہ تھی نہ طاقت
حلواے مرگ کیسا کیسی رسوم میت
ہر ایک مبتلا تھا درد و غم و بلا کا

بابا حسین کہہ کر روتی تھی جب سکینہ
دل چاک ہوتے تھے سب پھٹتا تھا سن کے سینہ
کہتا تھا ناملائم کیا کیا ہر اک کمینہ
حرف تسلی کیسے مذکور کیا وفا کا

پرخار وہ بیاباں کثرت سے تنگ آیا
بندی کیا سبھوں کو ماتم وہ یوں اٹھایا
بے محمل اشتروں پر عورات کو بٹھایا
پھر راہ ضیق ایسی جیسے سوئی کا ناکا

یہ خونچکاں فسانہ رکھتا نہیں ہے پایاں
مہماں عزیز ایسا تعظیم کا جو شایاں
اس پر یہ جور بے حد ایسی جفا نمایاں
ہے داغ سب کے دل پر اس طرفہ ماجرا کا

وہ کنج زار صحرا پھر چہل روزہ مدت
کچھ بولیے نہ اس جا یہ ہے خدا کی قدرت
جب عابدیں نے پائی اس قید سے فراغت
تب آکے جسم گاڑا اس سب کے پیشوا کا

القصہ شامیوں نے کیا کیا جفا عیاں کی
چادر تلک نہ چھوڑی ان ظلم دیدگاں کی
پوشیدہ کیا رہا ہے حاجت جو ہو بیاں کی
کہا شرح و بسط کریے اس خارجی ادا کا

آیت حجاب کی تھی شانوں میں جن کی نازل
سر ننگے پابرہنہ لائے انھوں کو جاہل
حق میرؔ یہ ہے تھے وے مردود سارے باطل
پردہ اٹھا دیا تھا اس قوم نے حیا کا


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.