چھپ گیا یار خود نما ہو کر
Appearance
چھپ گیا یار خود نما ہو کر
رہ گئی چشم شوق وا ہو کر
بے قراروں سے ان کو شرم آئی
شوخیاں رہ گئیں حیا ہو کر
کیا کہوں کیا ہے میرے دل کی خوشی
تم چلے جاؤ گے خفا ہو کر
روٹھ کر ان سے ہم کہاں جیتیں
وہ منا لیتے ہیں خفا ہو کر
پھنس گیا دل تو چھوڑ دو ہم کو
اب کہاں جائیں گے رہا ہو کر
دل سے کچھ کہہ رہی ہیں وہ آنکھیں
دیکھیں کیا ٹھہرے مشورا ہو کر
ہاتھ اٹھا کر تلاش دل سے حسنؔ
بیٹھ رہئے شکستہ پا ہو کر
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |