چھوڑیں گے گریباں کا نہ اک تار کبھی ہم

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
چھوڑیں گے گریباں کا نہ اک تار کبھی ہم
by حاتم علی مہر
303365چھوڑیں گے گریباں کا نہ اک تار کبھی ہمحاتم علی مہر

چھوڑیں گے گریباں کا نہ اک تار کبھی ہم
بیٹھیں گے جنوں میں تو نہ بیکار کبھی ہم

رہتے نہ اجازت کے طلب گار کبھی ہم
ہوتے جو ترے طالب دیدار کبھی ہم

پہنائے گا ہم کو وہ گل زخم کی بدھی
پنہائیں گے قاتل کو جو اک ہار کبھی ہم

دیوانہ نوازی ہے کہ سر کو دیئے پتھر
چھوڑیں گے نہ اب دامن کہسار کبھی ہم

واللہ بتوں سے نہیں کرنے کے محبت
رکھیں گے نہ اب رشتۂ زنار کبھی ہم

عنقا ہو جہاں سے مری جاں نام ہما بھی
پائیں جو ترا سایۂ دیوار کبھی ہم

پھاہے تو رہے داغ جنوں پر پئے جنت
کیا ڈر ہے جو رکھتے نہیں دستار کبھی ہم

تجویز کیا کیجئے گا یوں ہیں سزائیں
یا رحم کے بھی ہوں گے سزاوار کبھی ہم

فرصت نہیں ملتی ہے غزل کہنے کی اے مہر
پڑھتے ہیں تب اس ڈھنگ کے اشعار کبھی ہم

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse