چچا سام کے نام نواں خط
چچا جان۔ السلام علیکم۔
میرا پچھلا خط نامکمل تھا۔ بس مجھے صرف اتنا ہی یاد رہا ہے۔ اگر یاد آ گیا کہ میں نے اس میں کیا لکھا تھا تو میں اس کو مکمل کر دوں گا۔ میرا حافظہ یہاں کی کشید کی ہوئی شرابیں پی پی کر بہت کمزور ہو گیا ہے۔ یوں تو پنجاب میں شراب نوشی ممنوع ہے، مگر کوئی بھی آدمی بارہ روپے دو آنے خرچ کر کے شراب پینے کے لئے پرمٹ حاصل کر سکتا ہے۔ اس رقم میں پانچ روپے ڈاکٹر کی فیس ہوتے ہیں جو لکھ دیتا ہے کہ جس آدمی نے یہ روپے خرچ کئےہیں اگر باقاعدہ شراب نہ پئے تو اس کے جینے کا کوئی امکان نہیں۔
مجھے یاد ہے، بہت عرصہ ہوا آپ نے بھی اپنے ملک میں شراب نوشی قطعاً ممنوع قرار دے دی تھی۔ پرمٹوں کا جھگڑا آپ نے نہیں پالا تھا، لیکن اس کا نتیجہ خاطر خواہ نہیں نکلا تھا۔ بڑے بڑے ’’گینگسٹر‘‘ اور ’’بوٹ لیگر‘‘ پیدا ہو گئے تھے جنہوں نے آپ کی حکومت کے مقابلے میں اپنی ایک متوازی حکومت قائم کر لی تھی۔ آخر کار ناکام ہو کر آپ کو امتناع شراب کا حکم واپس لینا پڑا تھا۔ یہاں اس قسم کی کوئی واپسی نہیں ہوگی۔ ہماری حکومت ملاؤں کو بھی خوش رکھنا چاہتی ہے اور شرابیوں کو بھی۔ حالانکہ مزے کی بات یہ ہے کہ شرابیوں میں کئی ملا موجود ہیں اور ملاؤں میں اکثر شرابی۔ بہرحال شراب بکتی رہے گی، اس لئے آپ کو میری طرف سے مترود نہیں ہونا چاہیئے۔ یوں بھی آپ کافی کٹھور ہیں۔ اتنی دفعہ لکھ چکا ہوں کہ یہاں کی شراب بڑی ظالم ہے، لیکن آپ نے کبھی اپنے برخوردار بھتیجے کو اس کے نقصانات سے محفوظ رکھنے کے لئے اپنے یہاں کی وسکی بھیجنے کی زحمت گوارا نہ کی۔۔۔ میں اب اس کے متعلق آپ سے کوئی بات نہیں کروں گا۔ مجھے جھونکئے بھاڑ میں۔ میرے ملک پاکستان کی فوجی امداد جاری رکھیئے۔ میں خوش، میرا خدا خوش۔
میں خوش ہوں کہ آپ میرے خطوط اپنے پائپ میں جلا کر نہیں پیتے بلکہ غور سے پڑھتے ہیں اور میرے مشوروں پر کافی توجہ دیتے ہیں۔ اسی خوشی میں آپ کو میں ایک اور مشورہ دیتا ہوں۔ وہ یہ ہے کہ روزنامہ ’’زمیندار‘‘ کو آپ اس طور پر مدد دیجئے کہ کانوں کان خبر نہ ہو۔ اس کے بھینگے مینجنگ ڈائریکٹر اور نیم لنگڑے ایڈیٹر کو روپیہ وصول کرنے کا کوئی سلیقہ نہیں۔ بانی ’’زمیندار‘‘ کے فرزند ارجمند مولانا اختر علی خان (جن کو مولانا کا خطاب وراثت میں ملا ہے۔) بھی یہ سلیقہ نہیں رکھتے تھے۔ اس لئے کہ جب ان کو محکمہ تعلقات عامہ کے سابق ڈائریکٹر میر نور احمد صاحب کی طرف سے؟ ہزار روپے ’’منہ بندی‘‘ کے ملے تو انہوں نے جھٹ سے ایک نئی امریکن کار خرید لی اور بڑے ٹھاٹ سے اس کی ’’مسی‘‘ کی رسم ادا کی۔ یہ ان کی سراسر حماقت تھی۔ وہ ان دنوں جیل میں ہیں۔ خدا کرے وہ اسی چار دیواری میں رہیں اور اپنی مزید حماقتوں کا ثبوت نہ دیں، مگر مجھے حیرت ہے کہ ان کے صاحب زادے بھی جو آج کل ’’زمیندار‘‘ کی مینجنگ ایڈیٹری کرتے ہیں، تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود نرے کھرے چغد ہیں۔
پچھلے دنوں اس اخبار کے ’’تیمور لنگ‘‘ پر میری ہمدردی کا دورہ پڑا تھا، اگر آپ کے پاؤں میں لنگ نہ ہوتا تو آپ یقیناً پاکستان کے ڈاکٹر مصدق ہوتے۔ آپ جب لکھنا شروع کرتے ہیں تو سارے جہاں کا درد آپ کی گردن پر پیرو تسمہ پا کی طرح سوار ہو جاتا ہے۔ آپ کو خیر اس سے پہلے ہی یہ خبر پہنچ چکی ہوگی کہ جب ڈاکٹر مصدق کی اپیل کی سماعت ایران کی عدالت عالیہ میں شروع ہوئی تو اس پاکستانی ظہور الحسن ڈار نے جو، بے ڈار، تحریر میں یدطولیٰ رکھتا ہے کہا، ’’میں کچھ کہنا نہیں چاہتا۔ مجھے اس طلسمی انگوٹھی پر پوراا عتماد ہے جو میری بیوی نے مجھے پیش کی تھی۔‘‘ ایک مرتبہ انہوں نے فوجی عدالت میں سرکاری وکیل کو کشتی لڑنے کی دعوت دے ماری تھی۔ اس کے بعد انہوں نے فرمایا تھا کہ وہ بھوک ہڑتال فرمائیں گے اور خدا کے فضل و کرم سے دو دن کے اندر اندر اللہ کو پیارے ہو جائیں گے، مگر وہ اللہ کو پیارے بھی نہ ہوئے اور ماشاء اللہ زندہ رہے۔ بیہوش تو وہ اکثر ہوتے رہے۔
پاکستانی ڈاکٹر مصدق یعنی ظہور الحسن ڈار گو ڈاکٹر نہیں، لیکن بیہوش ہوتے رہتے ہیں۔ جب بھی ان کو غشی کا دورہ پڑتا ہے تو علی سفیان آفاقی اور منصور علی خان اس کو مولانا ظفر علی خان کا ایجاد کردہ لخلخلہ سنگھاتے ہیں تاکہ وہ ہوش میں آئیں اور آج کی ڈائری لکھنے کے قابل ہو سکیں۔ انہی کی لنگڑی ٹانگ دیکھ کر کسی ترقی پسند نے ایک شعر کہا تھا جس کا مصرعہ ثانی مجھے یاد رہا ہے۔۔۔ ایک توڑی خدا نے دوسری توڑے رسول۔ میرا خیال ہے یہ اس ترقی پسند شاعری کی زیادتی تھی۔ ورنہ ڈار صاحب بڑے کہنہ مشق اخبار نویس ہیں، گالیاں کھا کے بھی بے مزہ نہیں ہوتے۔ گالیاں اور سٹھیناں دے کر بھی ان کا پیٹ نہیں بھرتا اور یہ سب اس طلسمی انگوٹھی کے طفیل ہے جو غالباً لڑکپن میں ان کو کسی قدر دان نے دی تھی۔
مجھے کہنا یہ تھا کہ اگر آپ ’’زمیندار‘‘ کو اخباری امداد دیں تو میری وساطت سے دیں تاکہ میں اپنے ہمدرد ظہور الحسن ڈارکے لئے اس کا حصہ الگ کر کے اس کے حوالے کر دوں۔ بیچارہ میرے گھر بار کا بڑا خیال رکھتا ہے۔ میرے مضمون کی عام قیمت پچاس روپے ہے۔ اس نے اس خیال سے کہ میں اس گراں قدر رقم کو شراب میں اڑا دوں گا، اپنے خاص نمبر کے لئے مجھ سے ایک مضمون طلب کیا اور اس کی قیمت احتیاطاً بیس روپے مقرر فرمائی اور یہ تہیہ کیا کہ وہ اس رقم کا چیک میری بیوی کی خدمت میں خود پیش کرے گا تاکہ میری ہشت پشت پر اس کا احسان رہے۔۔۔ میں بہرحال اس کا ممنون و متشکر ہوں کہ اس کو میری ’’بد ذات‘‘ سے اتنی پرخلوص دلچسپی ہے۔
یہاں کے سب اخباروں میں ایک صرف ’’زمیندار‘‘ ہی ایسا اخبار ہے جس کو آپ کے ڈالر جب چاہیں خرید سکتے ہیں، اگر اختر علی خان رہا ہو گئے تو میں کوشش کروں گا کہ ظہور الحسن ڈار ہی اس کا ایڈیٹر رہے۔ بڑا برخوردار لڑکا ہے۔ لیکن آپ اپنے اثر و رسوخ سے کام لے کر میر نور احمد صاحب کو پھر محکمہ تعلقات عامہ کا ڈائریکٹر بنوا دیجئے۔ سرفراز صاحب کسی کام کے آدمی نہیں۔ وہ لاکھوں روپیہ اخباروں میں تقسیم کرنے کے بالکل اہل نہیں۔ بہتر ہوگا اگر آپ روپیہ میری معرفت روانہ کریں۔ میرا ان پر اس طرح کچھ رعب بھی رہے گا اور آپ کے پروپیگنڈے کا کام بھی میری نگرانی میں بطریقِ احسن ہوتا رہے گا۔
آپ کے پرچے جو یہاں شائع ہوتے ہیں، اکثر ردی میں بکتے ہیں۔ ’’اخبار، ردی، بوتل والے‘‘ آپ کے بے حد ممنون و متشکر ہیں۔ ان پرچوں کے کاغذ چونکہ مضبوط ہوتے ہیں، سودا سلف کے لئے لفافے بنانے کے کام آتے ہیں۔ آپ انہیں جاری رکھیئے کہ ہمارے یہاں کاغذ کی شدید قلت ہے، مگر آپ یہاں کے چلتے چلاتے ردی میں نہ بکنے والے پرچے خرید سکتے ہیں۔ چچا جان! میں نے ایک بہت تشویش ناک خبر پڑھی ہے۔ معلوم نہیں کمیونسٹوں کی پھیلائی ہوئی افواہ ہے یا کیا ہے۔ اخباروں میں لکھا تھا کہ آپ کے یہاں خلاف وضع فطری کے افعال زوروں پر ہیں۔ اگر یہ درست ہے تو بڑی شرم کی بات ہے۔ آپ کی ملین ڈالر ٹانگوں والی لڑکیوں کو کیا ہوا۔ ڈوب مرنے کا مقام ہے ان کے لئے۔ خدا نخواستہ اگر یہ سلسلہ آپ کے یہاں شروع ہو چکا ہے تو اپنے سارے ’’اوسکر وائلڈ‘‘ یہاں روانہ فرما دیجئے۔ یہاں ان کی کھپت ہو سکتی ہے۔ ویسے بھی ہم لوگ آپ کی فوجی امداد کے پیش نظر ہر خدمت کے لئے تیار ہیں۔
معلوم نہیں، کامریڈ سبط حسن نے کسی نہ کسی طریقے سے میرا خط پڑھ لیا ہے۔ میرا خیال ہے یہ وہی خط ہے جو کامریڈ راہی نے بالا بالا اڑا لیا تھا۔ اسے پڑھ کر اس نے مجھے ایک خط لکھا ہے۔ ذرا اس کی ڈھٹائی ملاحظہ فرمائے۔ کہتا ہے کہ سعادت تم خود کمیونسٹ ہو۔ چاہے مانو نہ مانو۔ چچا جان یہ خط ضرور آپ کی نظروں سے گزرے گا۔ میں آپ کی سات آزادیوں اور آپ کے ڈالروں کو حاضر ناظر رکھ کے کہتا ہوں کہ میں کبھی کمیونسٹ تھا، نہ اب ہوں۔ یہ محض سبط حسن کی شرارت ہے۔۔۔ بڑی سرخ قسم کی، جو آپ کے اور میرے تعلقات خراب کرنے پر درپے ہے۔ ورنہ جیسا کہ آپ کو معلوم ہے، میں آپ کا برخوردار اور نمک خوار ہوں۔ یہ الگ بات ہے کہ ان تین سو روپوں کی جو مجھے آپ نے بھیجے تھے صرف جم خانہ وسکی پی تھی (جس کی تعریف میں اپنے کسی پچھلے خط میں کر چکا ہوں۔ ) اور ایک دھیلے کا بھی نمک نہیں خریدا تھا۔ بڑی مصیبت ہے کہ ڈاکٹروں نے مجھے نمک کھانے سے منع کر رکھا ہے۔ جونہی انہوں نے اجازت دی میں آپ کو لکھ دوں گا، تاکہ آپ وہاں سے خالص امریکی نمک میری روز مرہ کی خوراک کے لئے بھیجتے رہیں اور میں صحیح معنوں میں آپ کا نمک خوار کہلا سکوں۔
میں آپ کو ایک بار پھر یقین دلانا چاہتا ہوں کہ میں کمیونسٹ نہیں ہوں۔ ہو سکتا ہے قادیانی بن جاؤں مگر کمیونسٹ تو میں کبھی نہیں بنوں گا۔ اس لئے کہ یہ سالے محض زبانی جمع خرچ سے کام لیتے ہیں۔ ہاتھ سے کچھ بھی دیتے دلاتے نہیں۔ یوں تو قادیانی بھی اسی قسم کے خسیس ہیں، پھر بھی پاکستانی ہیں۔ اس کے علاوہ میں ان سے کوئی بگاڑ پیدا نہیں کرنا چاہتا، کیونکہ مجھے معلوم ہے آپ کو ہائیڈروجن بم کے تجربوں کے بعد فوراً ایک نبی کی ضرورت ہوگی جو صرف مرزا بشیر الدین محمود ہی مہیا کر سکتے ہیں۔
آج کل یہاں کے ٹھیٹ مسلمان سر ظفر اللہ کے بہت خلاف ہو رہے ہیں۔ چاہتے ہیں کہ انہیں وزارت کی گدی سے اتار دیا جائے۔ صرف اس لئے کہ وہ قادیانی ہیں۔ ذاتی طور پر مجھے ان سے کوئی پرخاش نہیں، لیکن میں اتنا سمجھتا ہوں کہ وہ آپ کے لئے بہت کارآمد ثابت ہو سکتے ہیں۔ میرا مشورہ ہے کہ آپ ان کو اپنے یہاں بلا لیں۔ خدا کے فضل و کرم سے وہ آپ کے یہاں کی تمام جنسی بے راہ رویوں کو دور کر دیں گے۔ عراق کی حکومت کی طرف سے آج یہ اعلان سنا کہ آپ اس اسلامی ملک کو بھی فوجی امداد دینے پر رضا مند ہو گئے ہیں۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ امداد غیر مشروط ہو گی۔ چچا جان، آپ میرے پاس ہوتے تو میں آپ کے پاؤں چوم لیتا۔ خدا آپ کو رہتی دنیا تک سلامت رکھے۔ اسلامی ممالک پر آپ کی جو نظر کرم ہو رہی ہے اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ آپ بہت جلد مشرف بہ اسلام ہونے والے ہیں۔
میں اس سے پیشتر آپ کو مذہب اسلام کی چند خوبیاں بیان کر چکا ہوں، اگر آپ اس سعادت سے مشرف ہو چکے ہیں تو فوراً تین شادیاں کر لیجئے۔ (اگر چچی جان بقید حیات ہوں۔) اپنے یہاں کی مشہور ایکٹرس عشرت جہاں ببو کو میں نے تیار کر لیا ہے۔ آپ کی پہلی شادی (بشرطیکہ آپ کنوارے ہوں) اسی پاکستانی خاتون سے ہونی چاہیئے، اس لئے کہ وہ کئی شوہروں کا تجربہ رکھتی ہے اور پینا پلانا بھی جانتی ہے۔ فی الحال شادی شدہ ہے، لیکن میں اس سے کہوں گا تو وہ اپنے پانچویں یا چھٹے شوہر سے طلاق حاصل کر لے گی۔
ہاں، چچا جان، یہ میں نے کیا سنا ہے آپ کی ریٹا بے ورتھ روس جا رہی ہے۔ خدا کے لئے اسے روکئے۔ اس نے سر آغا خان کے صاحب زادے پرنس علی خان سے شادی کی تھی۔ مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں تھا، لیکن اس کا روس جانا مجھے بالکل اچھا نہیں لگتا۔ مجھے حیرت ہے کہ آپ نے ابھی تک اس شریر عورت کے کان کیوں نہیں اینٹھے۔ اس کے روس جانے کی خبر مجھے کامریڈ سبط حسن نے بڑے فخر و ابتہاج سے سنائی تھی۔ کم بخت زیر لب مسکرا رہا تھا۔ جیسے آپ کا مذاق اڑا رہا ہے اور یہ حقیقت ہے کہ اگر ریٹا روس چلی گئی تو آپ کا اور میرا دونوں کا ایسا مذاق اڑے گا کہ طبیعت صاف ہو جائے گی۔ کہیں یہ سیماب صفت ایکٹرس مالنکوف سے شادی کرنے تو نہیں جا رہی، اگر یہی سلسلہ ہے اور اس میں آپ کی کوئی سیاسی چال ہے تو کوئی مضائقہ نہیں۔ دوسری صورت بہر حال بہت ذلت آفریں اور خطرناک ہے۔
آج کے اخباروں میں یہ بھی لکھا تھا کہ ریٹا کے خلاف اپنی اور شہزادہ علی خان کی بچی یاسمین اور بڑی لڑکی (معلوم نہیں یہ کس خاوند سے ہے) صحیح طور پر پرداخت نہ کرنے کے الزام میں مقدمہ چل رہا ہے اور یہ دونوں لڑکیاں عدالت کی تحویل میں ہیں۔ ریٹا مغربی فلوریڈا میں ہے جہاں حکومت اس کے چوتھے شوہر کو ملک بدر کرنے کی کوشش میں مصروف ہے۔ یہ قصہ کیا ہے؟ میں نے احمد راہی سے پوچھا تھا لیکن وہ گول کر گیا۔ اس کی باتوں سے البتہ میں اپنی خداداد ذہانت سے اتنا معلوم کر سکا کہ یہ سب روسیوں کی کارستانی ہے۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ آپ ابھی تک خاموش کیوں ہیں۔
میں تو آپ کو یہ رائے دیتا ہوں کہ ریٹا کے چوتھے خاوند کو جو سنا ہے کہ موسیقار ہے، وہاں پھانسی پر لٹکا دیں یا اسے ایٹم بم یا ہائیڈروجن بم بنانے کے راز روس کے پاس بیچنے کے الزام میں ماخوذ کر کے عمر قید کی سزا کا حکم سنا دیں اور ریٹا کو فوراً یہاں بھیج دیں اور اس سے کہیں کہ وہ ہمارے مسٹر سہروردی کو پھانس کر اس سے شادی کر لے۔ اس کے بعد وہ مولانا بھاشانی سے ازدواجی رشتہ قائم کر سکتی ہے، پھر شیر بنگال چودھری فضل حق صاحب بھی خدا کے فضل و کرم سے موجود ہیں اور مشرقی پاکستان کے وزیراعلیٰ مقرر ہیں۔ ان تین بڑوں سے یکے بعد دیگرے طلاق لینے کے بعد وہ خواجہ ناظم الدین (سابق وزیر اعظم) سے رجوع کر سکتی ہے۔ زندہ رہا تو میں بھی حاضر ہوں، لیکن اس شرط پر کہ آپ میری مالی امداد باقاعدگی سے کرتے رہیں۔
آپ کے اخبارات کی اطلاع ہے کہ اقوام متحدہ میں ہمارے پاکستان کے مستقل مندوب پروفیسر اے ایس بخاری کو شعبہ اطلاعات کے افسر اعلیٰ کا عہدہ پیش کیا جا رہا ہے۔ میں نے تو یہ سنا تھا کہ سر ظفر اللہ کو علیحدہ کر کے، بخاری صاحب کو وزیر خارجہ مقرر کیا جائے گا، مگر معلوم ہوتا ہے کہ آپ انہیں مستقل طور پر اپنے پاس ہی رکھنا چاہتے ہیں۔ بخاری صاحب کو میں اچھی طرح جانتا ہوں۔ ان کو مجھ سے بہت پیار ہے جس کا اظہار وہ ہر پانچویں یا چھٹے برس کے بعد کسی نہ کسی انداز سے کرتے رہتے ہیں۔ آپ تو صرف اتنا جانتے ہوں گے کہ وہ انگریزی زبان کے بہت بڑے جادو بیان مقرر ہیں، لیکن میں ان کو مزاح نویس کی حیثیت سے بھی جانتا ہوں۔ ان کا ایک مشہور مضمون ’’لاہور کا جغرافیہ‘‘ ہے جسے پڑھ کر بڑے بوڑھوں کے اس قول کی سو فیصد تصدیق ہو جاتی ہے کہ لاہور، لاہور ہے، اور بخاری، بخاری۔ ان سے کہئے کہ وہ آپ کے امریکہ کا بھی جغرافیہ لکھیں تاکہ آپ کے حدود اربعہ سے تمام دنیا اچھی طرح واقف ہو جائے۔ اس کا روسی زبان میں ترجمہ کرا کے ماموں مالنکوف کو ضرور بھیج دیجئے گا۔
لکھتا میں بھی اچھا ہوں، لیکن مصیبت یہ ہے کہ آپ کے گھر کی مرغی بن کر دال برابر ہو گیا ہوں۔ ورنہ میں آپ کی شان میں ایسے ایسے قصیدے لکھ سکتا ہوں جو ’’نوائے وقت‘‘ کے حمید نظامی کے فلک کو بھی سوجھ نہیں سکتے۔ ایک مرتبہ مجھے اپنے یہاں بلایئے۔ دو تین مہینے اپنی سات آزادیوں کی مملکت کی سیر کرایئے۔ پھر دیکھئے یہ بندۂ آزاد آپ کی تمام خفیہ صلاحیتوں اور خوبیوں کا اعتراف کن جاندار الفاظ میں کرتا ہے۔ مجھے یقین ہے آپ اس قدر خوش ہوں گے کہ میرا منہ ڈالروں سے بھر دیں گے۔
جاپان کے سائنس دانوں نے ایک اعلان میں اس بات کا انکشاف کیا ہے کہ ہائیڈروجن بم کا موسم پر بھی اثر پڑتا ہے۔ حال ہی میں آپ نے جزائر مارشل میں اس بم کے جو تجربے کئے تھے، ان لوگوں کا کہنا ہے کہ جاپان کے موسم پر ان کا یہ اثر پڑا ہے کہ اپریل ختم ہونے کے باوجود وہاں اچھی خاصی سردی ہے۔ معلوم نہیں ان چپٹ نکے جاپانیوں کو سردی کیوں پسند نہیں۔ ہم پاکستانیوں کو تو بہت پسند ہے۔ آپ مہربانی فرما کے ایک ہائیڈروجن بم ہندوستان پر پھینک دیں۔ ہمارے ہاں گرمیوں کا موسم شروع ہو چکا ہے۔ سردی ہو جائے تو میں بڑے آرام میں رہوں گا۔
ریٹا سے پوچھیئے۔ اگر وہ مان جائے تو پاکستان میں اس کی پہلی شادی مجھی سے رہے۔ جواب سے جلد سرفراز فرمائیے گا۔
آپ کا تابع فرمان بھتیجا
سعادت حسن منٹو
۳۱ لکشمی مینشنز ہال روڈ لاہور
مورخہ ۲۶ اپریل ۱۹۵۴ء
This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator. |