Jump to content

چچا سام کے نام تیسرا خط

From Wikisource
چچا سام کے نام تیسرا خط (1954)
by سعادت حسن منٹو
319916چچا سام کے نام تیسرا خط1954سعادت حسن منٹو

چچا جان تسلیمات!

بہت مدت کے بعد آپ کو مخاطب کر رہا ہوں۔ میں در اصل بیمار تھا۔ علاج اس کا وہی آبِ نشاط انگیز تھا ساقی۔ مگر معلوم ہوا کہ یہ محض شاعری ہی شاعری ہے۔ معلوم نہیں ساقی کس جانور کا نام ہے۔ آپ لوگ تو اسے عمر خیام کی رباعیوں والی حسین و جمیل فتنہ ادا اور عشوہ طراز معشوقہ کہتے ہیں جو بلور کی نازک گردن صراحیوں سے اس خوش قسمت شاعر کو جام بھر بھر کے دیتی تھی۔۔۔ مگر یہاں تو کوئی مونچھوں والا بدشکل لونڈا بھی اس کام کے لئے نہیں ملتا۔ یہاں سے حسن بالکل رفوچکر ہو گیا ہے۔ عورتیں پردے سے باہر تو آئی ہیں مگر انہیں دیکھ کر جی چاہتا ہے کہ وہ پردے کے پیچھے ہی رہتیں تو اچھا تھا۔ آپ کے میکس فیکٹر نے ان کا حلیہ اور بھی مسخ کر کے رکھ دیا ہے۔۔۔ آپ مفت گندم بھیجتے ہیں۔ مفت لٹریچر بھیجتے ہیں، مفت ہتھیار بھیجتے ہیں۔ کیوں نہیں آپ سو دو سو ٹھیٹ امریکی لڑکیاں یہاں روانہ کر دیتے جو ساقی گری کے فرائض بطریق احسن انجام دیں۔

میں اپنی بیماری کا ذکر کر رہا تھا۔۔۔ اس کا باعث وہی خانہ ساز شراب تھی۔۔۔ اللہ اس خانہ خراب کا خانہ خراب کرے۔ زہر ہے، لیکن نہایت خام قسم کا۔ سب کچھ جانتا تھا سب کچھ سمجھتا تھا مگر۔۔۔

میر کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں

جانے اس عطار کے لونڈے میں کیا کشش تھی کہ حضرت میر اسی سے دوا لیتے رہے، حالانکہ وہی ان کے مرض کا باعث تھا۔ یہاں میں جس شراب فروش سے شراب لیتا ہوں وہ تو مجھ سے بھی کہیں زیادہ مریض ہے۔ میں تو اپنی سخت جانی کی وجہ سے بچ گیا لیکن اس کے بچنے کی کوئی امید نہیں۔

تین مہینے ہسپتال میں رہا ہوں، جنرل وارڈ میں تھا۔ مجھے وہاں آپ کی کوئی امریکی امداد نہ ملی۔ میرا خیال ہے آپ کو میری بیماری کی کوئی اطلاع نہیں ملی، ورنہ آپ ضرور وہاں سے دو تین پیٹیاں ٹیرامائی سین کی روانہ کر دیتے اور ثوابِ دارین حاصل کرتے۔ ہماری فورن پبلسٹی بہت کمزور ہے۔ اس کے علاوہ ہماری حکومت کو ادیبوں شاعروں اور مصوروں سے کوئی دلچسپی نہیں آخر۔۔۔ کس کس کی حاجت روا کرے کوئی۔

ہماری پچھلی مرحوم گورنمنٹ تھی۔ جنگ شروع ہوئی تو انگریز بہادر نے فردوسئ اسلام حفیظ جالندھری کو سونگ پبلسٹی ڈیپارٹمنٹ کا ڈائریکٹر بنا کر ایک ہزار روپیہ ماہوار مقرر کر دیا، پاکستان بنا تو اس کو صرف ایک کوٹھی اور شاید ایک پریس الاٹ ہوا۔ اب بیچارہ اخباروں میں اپنا رونا رو رہا ہے کہ ترانہ کمیٹی نے اس کو نکال باہر کیا۔ حالانکہ سارے پاکستان میں اکیلا وہی شاعر ہے جو دنیا کی اس سب سے بڑی اسلامی سلطنت کے لئے قومی ترانہ لکھ سکتا ہے اور اس کی دھن بھی تخلیق کر سکتا ہے۔ اس نے اپنی انگریز بیوی کو طلاق دے دی ہے، اس لئے کہ انگریزوں کا زمانہ ہی نہیں رہا۔ اب سنا ہے کسی امریکی بیوی کی تلاش میں ہے۔ چچا جان! خدا کے لئے اس کی مدد کیجئے۔ ایسا نہ ہو کہ غریب کی عاقبت خراب ہو۔

آپ کے یوں تو لاکھوں اور کروڑوں بھتیجے ہیں، لیکن مجھ ایسا بھتیجا آپ کو ایٹم بم کی روشنی میں بھی کہیں نہیں ملے گا۔ قبلہ کبھی ادھر بھی توجہ کیجئے۔ بس آپ کی ایک نظرِ التفات کافی ہے۔ صرف اتنا اعلان کر دیجئے کہ آپ کا ملک (خدا، اسے رہتی دنیا تک سلامت رکھے) صرف اسی صورت میں میرے ملک کو (خدا، اس کے شراب کشید کرنے والے کارخانوں کو نیست و نابود کرے) فوجی امداد دینے کے لئے تیار ہوگا۔ اگر سعادت منٹو آپ کے حوالے کر دیا جائے۔ یہاں میری وقعت ایک دم بہت بڑھ جائے گی۔ میں اس اعلان کے بعد شمع معمے اور ڈائریکٹر معمے حل کرنا بند کردوں گا۔ بڑی بڑی شخصیتیں میرے غریب خانے پر آئیں گی۔ میں آپ سے بذریعہ ہوائی ڈاک ٹھیٹ امریکی مسکراہٹ منگوا کر اپنے ہونٹوں پر لگا لوں گا اور اس کے ساتھ ان کا استقبال کروں گا۔

اس مسکراہٹ کے ہزار معنی ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر، ’’آپ نرے کھرے گدھے ہیں۔‘‘

’’آپ پرلے درجے کے ذہین آدمی ہیں۔‘‘

’’آپ سے مل کر مجھے بہت کوفت ہوئی۔‘‘

’’آپ سے مل کر مجھے بے حد مسرت حاصل ہوئی۔‘‘

’’آپ امریکہ کی بنی ہوئی بشرٹ ہیں۔‘‘

’’آپ پاکستان کی بنی ہوئی ماچس ہیں۔‘‘

’’آپ عرق گاؤزبان ہیں۔‘‘

’’آپ کوکا کولا ہیں۔‘‘ وغیرہ وغیرہ

میں رہنا پاکستان ہی میں چاہتا ہوں کہ مجھے اس کی خاک بہت عزیز ہے جو میرے پھیپھڑوں میں مستقل جگہ بنا چکی ہے، لیکن میں آپ کے ملک میں ضرور آؤں گا۔ اس لئے کہ میں اپنا کایا کلپ کرانا چاہتا ہوں، پھیپھڑے چھوڑ کر میں اپنے تمام باقی اعضا آپ کے ماہروں کے سپرد کر دوں گا اور ان سے کہوں گا کہ وہ انہیں امریکی طرز کا بنا دیں۔ مجھے امریکی چال ڈھال بہت پسند ہے۔ اس لئے کہ چال ڈھال کا کام دیتی ہے اور ڈھال چال کا۔ آپ کی بش شرٹ کا نیا ڈیزائن بھی مجھے بہت بھاتا ہے۔ ڈیزائن کا ڈیزائن اور اشتہار کا اشتہار۔ ہر روز یہاں آپ کے دفتر میں گئے، مطلب کی یعنی پروپیگنڈے کی چیزیں اس پر چھپوائیں اور ادھر ادھر گھومتے پھرے۔ کبھی شیزان میں جا بیٹھے۔ کبھی کافی ہاؤس میں اور کبھی چینزلنچ ہوم میں۔

پھر میں ایک پیکارڈ چاہتا ہوں، تاکہ جب میں یہ بش شرٹ پہنے، منہ میں آپ کا تحفے کے طور پر دیا ہوا پائپ دبائے مال پر سے گزروں تو لاہور کے سب ترقی پسند اور غیر ترقی پسند ادیبوں کو محسوس ہو کہ وہ سارا وقت بھاڑ ہی جھونکتے رہے تھے۔ لیکن دیکھئے چچا جان، اس کے پٹرول کا بندوبست آپ ہی کو کرنا پڑے گا۔ ویسے میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ پیکارڈ ملتے ہی میں ایک افسانہ لکھوں گا جس کاعنوان ’’ایران کا نو من تیل اور رادھا۔‘‘ یقین مانئے اس افسانے کے شائع ہوتے ہی ایران کے تیل کا سارا ٹنٹا ہی ختم ہو جائے گا اور مولانا ظفر علی خان کو، جو ابھی تک بقید حیات ہیں اپنے اس شعر میں مناسب و موزوں ترمیم کرنا پڑے گی۔


وائے ناکامی کہ چشمے تیل کے سوکھے تمام لے کے لانڈ جارج جب بھاگے کنستر ٹین کا

ایک چھوٹا سا، ننھا منا ایٹم بم تو میں آپ سے ضرور لوں گا۔ میرے دل میں مدت سے یہ خواہش دبی پڑی ہے کہ میں اپنی زندگی میں ایک نیک کام کروں۔۔۔ آپ پوچھیں گے، یہ نیک کام کیا ہے۔ آپ نے تو خیر کئی نیک کام کئے ہیں اور بدستور کئے جا رہے ہیں۔ آپ نے ہیروشیما کو صفحہ ہستی سے نابود کیا۔ ناگاساکی دھوئیں اور گردوغبار میں تبدیل کر دیا۔ اس کے ساتھ ساتھ آپ نے جاپان میں لاکھوں امریکی بچے پیدا کئے۔ فکر ہر کس بقدر ہمت اوست۔۔۔ میں ایک ڈرائی کلین کرنے والے کو مارنا چاہتا ہوں۔ ہمارے یہاں بعض مولوی قسم کے حضرات پیشاب کرتے ہیں تو ڈھیلا لگاتے ہیں۔۔۔ مگر آپ کیا سمجھیں گے۔۔۔ بہر حال معاملہ کچھ یوں ہوتا ہے کہ پیشاب کرنے کے بعد وہ صفائی کی خاطر کوئی ڈھیلا اٹھاتے ہیں اور شلوار کے اندر ہاتھ ڈال کر سربازار ڈرائی کلین کرتے چلتے پھرتے ہیں۔ میں بس یہ چاہتا ہوں کہ جونہی مجھے کوئی ایسا آدمی نظر آئے، جیب سے آپ کا دیا ہوا منی ایچر ایٹم بم نکالوں اور اس پردے ماروں تاکہ وہ ڈھیلے سمیت دھواں بن کر اڑ جائے۔

ہمارے ساتھ فوجی امداد کا معاہدہ بڑی معرکے کی چیز ہے۔ اس پر قائم رہیئے گا۔ ادھر ہندوستان کے ساتھ بھی ایسا ہی رشتہ استوار کر لیجئے۔ دونوں کو پرانے ہتھیار بھیجئے، کیونکہ اب تو آپ نے وہ تمام ہتھیار کنڈم کر دیے ہوں گے جو آپ نے پچھلی جنگ میں استعمال کئے تھے۔ آپ کا یہ فالتو اسلحہ ٹھکانے لگ جائے گا اور آپ کے کارخانے بیکار نہیں رہیں گے۔ پنڈت جواہر لال نہرو کشمیری ہیں۔ ان کو تحفے کے طور پر ایک ایسی بندوق ضرور بھیجئے گا جو دھوپ میں رکھنے سے ٹھس کرے۔ کشمیری میں بھی ہوں، مگر مسلمان۔ میں نے اپنے لئے آپ سے ننھا منا ایٹم بم مانگ لیا ہے۔ ایک بات اور۔۔۔ یہاں دستور بننے ہی میں نہیں آتا۔ خدا کے لئے آپ وہاں سے کوئی ماہر جلد از جلد روانہ کیجئے۔ قوم بغیر ترانے کے تو چل سکتی ہے لیکن دستور کے بغیر نہیں چل سکتی۔۔۔ لیکن آپ چاہیں تو بابا چل بھی سکتی ہے۔ جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے۔

ایک اور بات۔ یہ خط ملتے ہی امریکی ماچسوں کا ایک جہاز روانہ کر دیجئے۔ یہاں جو ماچس بنی ہے، اس کو جلانے کے لئے ایرانی ماچس خریدنی پڑتی ہے، لیکن آدھی ختم ہونے کے بعد یہ بیکار ہو جاتی ہے اور بقایا تیلیاں جلانے کے لئے روسی ماچس لینا پڑتی ہے جو پٹاخے زیادہ چھوڑتی ہے۔ جلتی کم ہے۔ امریکی گرم کوٹ بہت خوب ہیں۔ لنڈا بازار ان کے بغیر بالکل لنڈا تھا، مگر آپ پتلونیں کیوں نہیں بھیجتے۔ کیا آپ پتلونیں نہیں اتارتے۔۔۔ ہو سکتا ہے کہ ہندوستان روانہ کر دیتے ہوں۔۔۔ آپ بڑے کائیاں ہیں، ضرور کوئی بات ہے۔ ادھر کوٹ بھیجتے ہیں، ادھر پتلونیں، جب لڑائی ہوگی تو آپ کے کوٹ اور آپ ہی کی پتلونیں، آپ ہی کے بھیجے ہوئے ہتھیاروں سے لڑیں گی۔

یہ میں کیا سن رہا ہوں کہ چارلی چپلن اپنے امریکی شہریت کے حقوق سے دست بردار ہو گیا ہے۔۔۔ اس مسخرے کو کیا سوجھی۔ ضرور اس کو کمیونزم ہو گیا ہے، ورنہ ساری عمر آپ کے ملک میں رہا۔ یہیں اس نے نام کمایا، یہیں اس نے دولت حاصل کی۔ کیا اسے وہ وقت یاد نہ رہا جب لندن کے گلی کوچوں میں بھیک مانگتا پھرتا تھا اور کوئی پوچھتا نہیں تھا۔ روس چلا جاتا۔۔۔ لیکن وہاں مسخروں کی کیا کمی ہے۔ چلو انگلستان ہی میں رہے۔ اور کچھ نہیں تو وہاں کے رہنے والوں کو امریکنوں کا سا کھل کر ہنسنا تو آ جائے گا اور وہ جو ہر وقت اپنے چہروں پر سنجیدگی اور طہارت کا خلاف چڑھائے دکھتے ہیں، کچھ تو اپنی جگہ سے ہٹے گا۔ اچھا، میں اب خط کو بند کرتا ہوں۔

بنڈی لانا کو فری اسٹائل کا ایک بوسہ

خاکسار
سعادت حسن منٹو

۱۵ مارچ ۱۹۵۴ء
۳۱ لکشمی مینشنز ہال روڈ، لاہور


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.