چور (سعادت حسن منٹو)
مجھے بے شمار لوگوں کا قرض ادا کرنا تھا اور یہ سب شراب نوشی کی بدولت تھا۔ رات کو جب میں سونے کے لیے چارپائی پر لیٹتا تو میرا ہر قرض خواہ میرے سرہانے موجود ہوتا۔۔۔ کہتے ہیں کہ شرابی کا ضمیر مردہ ہوجاتا ہے، لیکن میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ میرے ساتھ میرے ضمیر کا معاملہ کچھ اور ہی تھا۔ وہ ہر روز مجھے سرزنش کرتا اور میں خفیف ہوکے رہ جاتا۔
واقعی میں نے بیسیوں آدمیوں سے قرض لیا تھا۔ میں نے ایک رات سونے سے پہلے بلکہ یوں کہیے کہ سونے کی ناکام کوشش کرنے سے پہلے حساب لگایا تو قریب قریب ڈیڑھ ہزار روپے میرے ذمے نکلے۔ میں بہت پریشان ہوا۔ میں نے سوچا یہ ڈیڑھ ہزار روپے کیسے ادا ہوں گے۔ بیس پچیس روزانہ کی آمدن ہے لیکن وہ میری شراب کے لیے بمشکل کافی ہوتے ہیں۔
آپ یوں سمجھیے کہ ہر روز کی ایک بوتل ۔۔۔ تھرڈ کلاس رم کی ۔۔۔ دام ملاحظہ ہوں۔۔۔ سولہ روپے۔۔۔ سولہ روپے تو ایک طرف رہے، ان کے حاصل کرنے میں کم از کم تین روپے ٹانگے پر صرف ہوجاتے تھے۔ کام ہوتا نہیں تھا، بس پیشگی پر گزارہ تھا۔ لیکن جب پیشگی دینے والے تنگ آگئے تو انھوں نے میری شکل دیکھتے ہی کوئی نہ کوئی بہانہ تراش لیا یا اس سے پیشتر کہ میں ان سے ملوں،کہیں غائب ہوگئے۔ آخر کب تک وہ مجھے پیشگی دیتے رہتے۔۔۔ لیکن میں مایوس نہ ہوتا اور خدا پر بھروسہ رکھ کر کسی نہ کسی حیلے سے دس پندرہ روپے ادھار لینے میں کامیاب ہوجاتا۔
مگر یہ سلسلہ کب تک جاری رہ سکتا تھا۔ لوگ میری عزت کرتے تھے مگر اب وہ میری شکل دیکھتے ہی بھاگ جاتے تھے۔۔۔ سب کو افسوس تھا کہ اتنا اچھا مکینک تباہ ہورہاہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ میں بہت اچھا مکینک تھا۔ مجھے کوئی بگڑی مشین دے دی جاتی تو میں اس کو سرسری طورپر دیکھنے کے بعد یوں چٹکیوں میں ٹھیک کردیتا۔ لیکن جہاں تک میں سمجھتا ہوں میری یہ ذہانت صرف شراب ملنے کی امید پرقائم تھی، اس لیے کہ میں پہلے طے کرلیا کرتا تھا کہ اگر کام ٹھیک ہوگیا تو وہ مجھے اتنے روپے ادا کردیں گے جن سے میرے دو روز کی شراب چل سکے۔
وہ لوگ خوش تھے۔ مجھے وہ تین روز کی شراب کے دام ادا کردیتے۔ اس لیے کہ جو کام میں کردیتا وہ کسی اور سے نہیں ہوسکتا تھا۔
لوگ مجھے لوٹ رہے تھے۔۔۔ میری ذہانت وذکاوت پر میری اجازت سے ڈاکے ڈال رہے تھے۔۔۔اور لطف یہ ہے کہ میں سمجھتا تھا کہ میں انھیں لوٹ رہا ہوں۔۔۔ ان کی جیبوں پر ہاتھ صاف کررہا ہوں۔۔۔ اصل میں مجھے اپنی صلاحتیوں کی کوئی قدر نہ تھی۔ میں سمجھتا تھا کہ میکنزم بالکل ایسی ہے جیسے کھانا کھانا یا شراب پینا۔
میں نے جب بھی کوئی کام ہاتھ میں لیا مجھے کوفت محسوس نہیں ہوئی۔ البتہ اتنی بات ضرور تھی کہ جب شام کے چھ بجنے لگتے تو میری طبعیت بے چین ہوجاتی۔ کام مکمل ہو چکا ہوتا مگر میں ایک دو پیچ غائب کردیتا تاکہ دوسرے روز بھی آمدن کا سلسلہ قائم رہے۔۔۔ یہ شراب حرام زادی کتنی بری چیز ہے کہ آدمی کو بے ایمان بھی بنادیتی ہے۔
میں قریب قریب ہر روز کام کرتا تھا۔ میری مانگ بہت زیادہ تھی اس لیے کہ مجھ ایسا کاریگر ملک بھر میں نایاب تھا۔۔۔ تار باجا اور راگ بوجھا والاحساب تھا۔ میں مشین دیکھتے ہی سمجھ جاتا تھا کہ اس میں کیا قصور ہے۔
میں آپ سے سچ عرض کرتا ہوں، مشینری کتنی ہی بگڑی ہوئی کیوں نہ ہو، اس کو ٹھیک کرنے میں زیادہ سے زیادہ ایک ہفتہ لگنا چاہیے۔ لیکن اگر اس میں نئے پرزوں کی ضرورت ہو اور آسانی سے دستیاب نہ ہورہے ہوں تو اس کے متعلق کچھ نہیں کہا جاسکتا۔
میں بلا ناغہ شراب پیتا تھا اور سوتے وقت بلا ناغہ اپنے قرض کے متعلق سوچتا تھا، جو مجھے مختلف آدمیوں کو ادا کرنا تھا۔ یہ ایک بہت بڑا عذاب تھا۔ پینے کے باوجود اضطراب کے باعث مجھے نیند نہ آتی۔۔۔ دماغ میں سیکڑوں اسکیمیں آتی تھیں۔ بس میری یہ خواہش تھی کہ کہیں سے دس ہزار روپے آجائیں تو میری جان میں جان آئے۔۔۔ ڈیڑھ ہزار روپیہ قرض کا فی الفور ادا کر دوں۔ ایک ٹیکسی لوں اور ہر قرض خواہ کے پاس جاکر معذرت طلب کروں اور جیب سے روپے نکال کر ان کو دے دوں۔ جو روپے باقی بچیں ان سے ایک سیکنڈ ہینڈ موٹر خرید لوں اور شراب پینا چھوڑ دوں۔
پھر یہ خیال آتا کہ نہیں دس ہزار سے کام نہیں چلے گا۔۔۔ کم از کم پچاس ہزار ہونے چاہئیں۔۔۔ میں سوچنے لگتا کہ اگراتنے روپے آجائیں، جو یقیناً آنے چاہئیں تو سب سے پہلے میں ایک ہزار نادار لوگوں میں تقسیم کر دوں گا۔۔۔ ایسے لوگوں میں جو روپیہ لے کر کچھ کاروبار کرسکیں۔
باقی رہے انچاس ہزار۔۔۔ اس رقم میں سے میں نے دس ہزار اپنی بیوی کو دینے کا ارادہ کیا تھا۔ میں نے سوچا تھا کہ فکسڈ ڈپازٹ ہونا چاہیے۔۔۔ گیارہ ہزار ہوئے باقی رہے انتالیس ہزار۔۔۔ میرے لیے بہت کافی تھے۔ میں نے سوچا، یہ میری زیادتی ہے۔ چنانچہ میں نے بیوی کا حصّہ دوگنا کردیا، یعنی بیس ہزار۔۔۔ اب بچے انتیس ہزار۔۔۔ میں نے سوچا کہ پندرہ ہزار اپنی بیوہ بہن کو دے دوں گا۔ اب میرے پاس چودہ ہزار رہے۔۔۔ ان میں سے آپ سمجھیے کہ دو ہزار قرض کے نکل گئے۔ باقی بچے بارہ ہزار۔۔۔ ایک ہزار روپے کی اچھی شراب آنی چاہیے ۔۔۔ لیکن میں نے فوراً تھو کردیا اور یہ سوچا کہ پہاڑ پر چلا جاؤں گا اور کم از کم چھ مہینے رہوں گا تاکہ صحت درست ہوجائے۔ شراب کے بجائے دودھ پیا کروں گا۔
بس ایسے ہی خیالات میں دن رات گزر رہے تھے ۔۔۔ پچاس ہزار کہاں سے آئیں گے یہ مجھے معلوم نہیں تھا۔۔۔ ویسے دو تین اسکیمیں ذہن میں تھیں۔ شمع دہلی کے معمے حل کروں اور پہلا انعام حاصل کر لوں۔۔۔ ڈربی کی لاٹری کا ٹکٹ خرید لوں۔۔۔ چوری کروں اور بڑی صفائی سے۔ میں فیصلہ نہ کرسکا کہ مجھے کون سا قدم اٹھاناچاہیے۔ بہرحال یہ طے تھا کہ مجھے پچاس ہزار وپے حاصل کرنا ہیں۔۔۔ یوں ملیں یا ووں ملیں۔
اسکیمیں سوچ سوچ کر میرا دماغ چکرا گیا۔۔۔ رات کو نیند نہیں آتی تھی، جو بہت بڑاعذاب تھا۔ قرض خواہ بے چارے تقاضا نہیں کرتے تھے لیکن جب ان کی شکل دیکھتا تو ندامت کے مارے پسینہ پسینہ ہوجاتا۔۔۔ بعض اوقات تو میرا سانس رکنے لگتا اور میرا جی چاہتا کہ خودکشی کر لوں اور اس عذاب سے نجات پاؤں۔
مجھے معلوم نہیں کیسے اور کب میں نے تہیہ کرلیا کہ چوری کروں گا۔۔۔ مجھے یہ معلوم نہیں کہ مجھے کیسے معلوم ہوا کہ۔۔۔ محلے میں ایک بیوہ عورت رہتی ہے جس کے پاس بے اندازہ دولت ہے۔۔۔ اکیلی رہتی ہے۔۔۔ میں وہاں رات کے دو بجے پہنچا۔ یہ مجھے پہلے ہی معلوم ہوچکا تھا کہ وہ دوسری منزل پر رہتی ہے۔۔۔ نیچے پٹھان کا پہرہ تھا۔ میں نے سوچا کوئی اور ترکیب سوچنی چاہیے اوپر جانے کے لیے۔۔۔ میں ابھی سوچ ہی رہاتھا کہ میں نے خود کو اس پارسی لیڈی کے فلیٹ کے اندر پایا۔۔۔ میرا خیال ہے کہ میں پائپ کے ذریعے اوپر چڑھ گیا تھا۔
ٹارچ میرے پاس تھی۔۔۔ اس کی روشنی میں میں نے اِدھر ادھر دیکھا۔ ایک بہت بڑا سیف تھا۔ میں نے اپنی زندگی میں کبھی سیف کھولا تھا نہ بند کیا تھا، لیکن اس وقت جانے مجھے کہاں سے ہدایت ملی کہ میں نے ایک معمولی تار سے اسے کھول ڈالا۔ اندر زیور ہی ز یور تھے۔ بہت بیش قیمت ۔۔۔ میں نے سب سمیٹے اور مکے مدینے والے زرد رومال میں باندھ لیے۔۔۔ پچاس ساٹھ ہزارروپے کا مال ہوگا۔۔۔ میں نے کہا ٹھیک ہے اتناہی چاہیے تھاکہ اچانک دوسرے کمرے سے ایک بڑھیا پارسی عورت نمودار ہوئی۔۔۔ اس کا چہرہ جھریوں سے بھرا ہوا تھا۔۔۔ مجھے دیکھ کر پوپلی سی مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر نمودار ہوئی۔ میں بہت حیران ہوا کہ یہ ماجرا کیا ہے۔۔۔ میں نے اپنی جیب سے بھرا ہوا پستول نکال کرتان لیا۔۔۔ اس کی پوپلی مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر اور زیادہ پھیل گئی۔ اس نے مجھ سے بڑے پیار سے پوچھا، ’’آپ یہاں کیسے آئے؟‘‘
میں نے سیدھا سا جواب دیا، ’’چوری کرنے۔‘‘
’’اوہ!‘‘ بڑھیا کے چہرے کی جھریاں مسکرانے لگیں، ’’تو بیٹھو۔۔۔ میرے گھر میں تو نقدی کی صورت میں صرف ڈیڑھ روپیہ ہے۔۔۔ تم نے زیور چرایا ہے، لیکن مجھے افسوس ہے کہ تم پکڑے جاؤ گے کیونکہ ان زیوروں کو صرف کوئی بڑا جوہری ہی لے سکتا ہے۔۔۔ اور ہر بڑا جوہری انھیں پہچانتا ہے۔۔۔‘‘
یہ کہہ کر وہ کرسی پر بیٹھ گئی۔۔۔ میں بہت پریشان تھا کہ یا الٰہی یہ سلسلہ کیا ہے۔ میں نے چوری کی ہے اور بڑی بی مسکرا مسکرا کر مجھ سے باتیں کررہی ہیں۔۔۔ کیوں؟
لیکن فوراً اس کیوں کا مطلب سمجھ میں آگیا جب ماتا جی نے آگے بڑھ کر میرے پستول کی پروانہ کرتے ہوئے میرے ہونٹوں کا بوسہ لے لیا اور اپنی بانھیں میری گردن میں ڈال دیں۔۔۔ اس وقت خدا کی قسم میرا جی چاہا کہ گٹھری ایک طرف پھینکوں اور وہاں سے بھاگ جاؤں۔ مگر وہ تسمہ پا عورت نکلی، اس کی گرفت اتنی مضبوط تھی کہ میں مطلقاً ہل جل نہ سکا۔۔۔ اصل میں میرے ہر رگ و ریشے میں ایک عجیب و غریب قسم کا خوف سرایت کرگیا تھا۔ میں اسے ڈائن سمجھنے لگا تھا جو میرا کلیجہ نکال کرکھانا چاہتی تھی۔
میری زندگی میں کسی عورت کا دخل نہیں تھا۔ میں غیر شادی شدہ تھا۔ میں نے اپنی زندگی کے تیس برسوں میں کسی عورت کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہیں دیکھا تھا۔ مگر پہلی رات جب کہ میں چوری کرنے کے لیے نکلا تو مجھے یہ پھپھا کٹنی مل گئی جس نے مجھ سے عشق کرنا شروع کردیا۔۔۔ آپ کی جان کی قسم! میرے ہوش و حواس غائب ہوگئے۔۔۔ وہ بہت ہی کریہہ المنظر تھی۔ میں نے اس سے ہاتھ جوڑ کر کہا، ’’ماتا جی مجھے بخشو۔۔۔ یہ پڑے ہیں آپ کے زیور۔۔۔ مجھے اجازت دیجیے۔‘‘
اس نے تحکمانہ لہجے میں کہا، ’’تم نہیں جاسکتے۔۔۔ تمہارا پستول میرے پاس ہے۔۔۔ اگر تم نے ذرا سی بھی جنبش کی تو میں ڈز کردوں گی۔۔۔ یاٹیلی فون کرکے پولیس کو اطلاع دے دوں گی کہ وہ آکر تمھیں گرفتار کرلے۔۔۔لیکن جانِ من! میں ایسا نہیں کروں گی۔۔۔ مجھے تم سے محبت ہوگئی ہے۔۔۔ میں ابھی تک کنواری رہی ہوں۔۔۔ اب تم یہاں سے نہیں جاسکتے۔‘‘
یہ سن کر قریب تھا کہ میں بے ہوش ہوجاؤں کہ ٹن ٹن شروع ہوئی۔ دور کوئی کلاک صبح کے پانچ بجنے کی اطلاع دے رہا تھا۔ میں نے بڑی بی کی ٹھوڑی پکڑی اور اس کے مرجھائے ہوئے ہونٹوں کا بوسہ لے کر جھوٹ بولتے ہوئے کہا، ’’میں نے اپنی زندگی میں سیکڑوں عورتیں دیکھی ہیں، لیکن خدا واحد شاہد ہے کے تم ایسی عورت سے میرا کبھی واسطہ نہیں پڑا۔ تم کسی بھی مرد کے لیے نعمتِ غیر مترقبہ ہو۔ مجھے افسوس ہے کہ میں نے اپنی زندگی کی پہلی چوری تمہارے مکان سے شروع کی۔ یہ زیور پڑے ہیں۔ میں کل آؤں گا، بشرطیکہ تم وعدہ کرو کہ مکان میں اور کوئی نہیں ہوگا۔‘‘
بڑھیا یہ سن کر بہت خوش ہوئی، ’’ضرور آؤ۔۔۔ تم اگر چاہوگے تو گھر میں ایک مچھر تک بھی نہیں ہوگا جو تمہارے کانوں کو تکلیف دے۔۔۔ مجھے افسوس ہے کہ گھر میں صرف ایک روپیہ اور آٹھ آنے تھے۔۔۔ کل تم آؤ گے تو میں تمہارے لیے بیس پچیس ہزار بنک سے نکلوالوں گی۔۔۔ یہ لو اپنا پستول۔‘‘
میں نے اپنا پستول لیا اور وہاں سے دم دبا کر بھاگا۔۔۔ پہلا وار خالی گیا تھا۔۔۔ میں نے سوچا کہیں اور کوشش کرنی چاہیے۔ قرض ادا کرنے ہیں اورجو میں نے پلان بنایا ہے اس کی تکمیل بھی ہوناچاہیے۔
چنانچہ میں نے ایک جگہ اور کوشش کی۔ سردیوں کے دن تھے، صبح کے چھ بجنے والے تھے۔۔۔ یہ ایسا وقت ہوتا ہے جب سب گہری نیند سو رہے ہوتے ہیں۔۔۔ مجھے ایک مکان کا پتہ تھا کہ اس کا جو مالک ہے بڑا مالدار ہے۔۔۔ بہت کنجوس ہے۔۔۔ اپنا روپیہ بینک میں نہیں رکھتا۔۔۔ گھر میں رکھتا ہے۔ میں نے سوچا اس کے ہاں چلنا چاہئے۔میں وہاں کن مشکلوں سے اندر داخل ہوا میں بیان نہیں کرسکتا۔۔۔ بہرحال پہنچ گیا۔ صاحب خانہ جو ماشاء اللہ جوان تھے، سورہے تھے۔ میں نے ان کے سرہانے سے چابیاں نکالیں اور الماریاں کھولنا شروع کردیں۔
ایک الماری میں کاغذات تھے اور کچھ فرنچ لیدر۔ میری سمجھ میں نہ آیا کہ یہ شخص جو کنوارا ہے، فرنچ لیدر کہاں استعمال کرتا ہے۔۔۔ دوسری الماری میں کپڑے تھے۔ تیسری بالکل خالی تھی، معلوم نہیں اس میں تالا کیوں پڑا ہوا تھا۔اور کوئی الماری نہیں تھی۔ میں نے تمام مکان کی تلاشی لی لیکن مجھے ایک پیسہ بھی نظر نہ آیا۔۔۔ میں نے سوچا اس شخص نے ضرور اپنی دولت کہیں دبا رکھی ہوگی۔۔۔ چنانچہ میں نے اس کے سینے پر بھرا ہوا پستول رکھ کر اسے جگایا۔
وہ ایساچونکا اور بدکا کہ میرا پستول فرش پر جاپڑا۔ میں نے ایک دم پستول اٹھایا اور اس سے کہا، ’’میں چور ہوں۔۔۔ یہاں چوری کرنے آیا ہوں۔۔۔ لیکن تمہاری تین الماریوں سے مجھے ایک دمڑی بھی نہیں ملی۔۔۔ حالانکہ میں نے سنا تھا کہ تم بڑے مالدار آدمی ہو۔‘‘
وہ شخص جس کا نام مجھے اب یاد نہیں، مسکرایا۔۔۔ انگڑائی لے کر اٹھا اور مجھے سے کہنے لگا، ’’یار تم چور ہو تو تم نے مجھے پہلے اطلاع دی ہوتی۔۔۔ مجھے چوروں سے بہت پیار ہے۔۔۔ یہاں جو بھی آتا ہے وہ خود کو بڑا شریف آدمی کہتا ہے، حالانکہ وہ اول درجے کا کالا چور ہوتا ہے ۔۔۔ مگر تم چور ہو۔۔۔ تم نے اپنے آپ کو چھیایا نہیں ہے ۔۔۔ میں تم سے مل کر بہت خوش ہوا ہوں۔‘‘
یہ کہہ کر اس نے مجھ سے ہاتھ ملایا۔ اس کے بعد ریفریجریٹر کھولا، میں سمجھا شاید میری تواضع شربت وغیرہ سے کرے گا۔۔۔ لیکن اس نے مجھے بلایا اور کھلے ہوئے ریفریجریٹر کے پاس لے جاکر کہا، ’’دوست میں اپنا سارا روپیہ اس میں رکھتا ہوں۔۔۔ یہ صندوقچی دیکھتے ہو۔۔۔ اس میں قریب قریب ایک لاکھ روپیہ پڑا ہے۔۔۔ تمھیں کتنا چاہیے؟ ‘‘
اس نے صندوقچی باہر نکالی جو یخ بستہ تھی۔ اسے کھولا۔ اندر سبز رنگ کے نوٹوں کی گڈیاں پڑی تھیں۔ ایک گڈی نکال کر اس نے میرے ہاتھ میں تھمادی اور کہا، ’’بس اتنے کافی ہوں گے۔۔۔ دس ہزار ہیں۔‘‘
میری سمجھ میں نہ آیا کہ اسے کیا جواب دوں۔ میں تو چوری کرنے آیا تھا۔۔۔ میں نے گڈی اس کو واپس دی اور کہا، ’’صاحب! مجھے کچھ نہیں چاہیے۔۔۔ مجھے معافی دیجیے۔۔۔ پھر کبھی حاضر ہوں گا۔‘‘
میں وہاں سے آپ سمجھیے کہ دم دبا کر بھاگا۔ گھر پہنچا تو سورج نکل چکا تھا۔۔۔ میں نے سوچا کہ چوری کا ارادہ ترک کردینا چاہیے۔۔۔ دوجگہ کوشش کی مگر کامیاب نہ ہوا۔۔۔ دوسری رات کو کوشش کرتا تو کامیابی یقینی نہیں تھی۔۔۔ لیکن قرض بدستور اپنی جگہ پر موجود تھا جو مجھے بہت تنگ کررہا تھا ۔۔۔ حلق میں یوں سمجھیے کہ ایک پھانس سی اٹک گئی تھی۔۔۔ میں نے بالآخر یہ ارادہ کرلیا کہ جب اچھی طرح سوچکوں گا تو اٹھ کر خود کشی کر لوں گا۔
سو رہا تھا کہ دروازے پر دستک ہوئی۔۔۔ میں اٹھا۔۔۔ دروازہ کھولا۔۔۔ ایک بزرگ آدمی کھڑے تھے۔ میں نے ان کو آداب عرض کیا۔۔۔ انھوں نے مجھ سے فرمایا، ’’لفافہ دینا تھا، اس لیے آپ کو تکلیف دی۔۔۔ معاف فرمائیےگا، آپ سو رہے تھے۔‘‘
میں نے ان سے لفافہ لیا۔۔۔ وہ سلام کر کے چلے گئے ۔۔۔ میں نے دروازہ بند کیا ۔۔۔ لفافہ کافی وزنی تھا۔۔۔ میں نے اسے کھولا اور دیکھا کہ سو سو روپے کے بے شمار نوٹ ہیں۔۔۔ گنے تو پچاس ہزار نکلے۔۔۔ ایک مختصر سا رقعہ تھا، جس میں لکھا تھا کہ ’’آپ کے یہ روپے مجھے بہت دیر پہلے ادا کرنے تھے۔۔۔ افسوس ہے کہ میں اب ادا کرنے کے قابل ہوا ہوں۔‘‘
میں نے بہت غور کیا کہ یہ صاحب کون ہوسکتے ہیں جنہوں نے مجھ سے قرض لیا۔۔۔ سوچتے سوچتے میں نے آخر سوچا کہ ہوسکتا ہے کسی نے مجھ سے قرض لیا ہو جو مجھے یاد نہ رہا ہو۔بیس ہزار اپنی بیوی کو۔۔۔ پندرہ ہزار اپنی بیوہ بہن کو۔۔۔ دو ہزار قرض کے ۔۔۔ باقی بچے تیرہ ہزار ۔۔۔ ایک ہزار میں نے اچھی شراب کے لیے رکھ لیے۔۔۔ پہاڑ پر جانے اور دودھ پینے کا خیال میں نے چھوڑ دیا۔
دروازے پر پھر دستک ہوئی۔۔۔ اٹھ کر باہر گیا۔ دروزہ کھولا تو میرا ایک قرض خواہ کھڑا تھا۔ اس نے مجھ سے پانچ سو روپے لینا تھے۔ میں لپک کر اندر گیا۔۔۔ تکیے کے نیچے نوٹوں کا لفافہ دیکھا مگر وہاں کچھ موجود ہی نہیں تھا۔
This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator. |