Jump to content

چند مکالمے

From Wikisource
چند مکالمے (1956)
by سعادت حسن منٹو
325038چند مکالمے1956سعادت حسن منٹو

’’السلام و علیکم! ‘‘

’’وعلیکم السلام‘‘

’’کہیے مولانا کیا حال ہے؟‘‘

’’اللہ کا فضل و کرم ہے ہر حال میں گزر رہی ہے۔‘‘

’’حج سے کب واپس تشریف لائے؟‘‘

’’جی آپ کی دعا سے ایک ہفتہ ہوگیا ہے۔ ‘‘

’’اللہ اللہ ہے، آپ نے ہمت کی تو خانہ کعبہ کی زیارت کر لی۔ ہماری تمنا دل ہی میں رہ جائے گی۔ دعا کیجیے یہ سعادت ہمیں بھی نصیب ہو۔‘‘

’’انشاء اللہ ورنہ میں گنہگار کس قابل ہوں۔‘‘

’’میرے لائق کوئی خدمت؟‘‘

’’کسی تکلیف کی ضرورت نہیں۔ ہاں دیکھیے ذرا کان کیجیے، ادھر میرے ہاں کھانڈ کی دو بوریاں ہیں۔ میری بے شمار لوگوں سے جان پہچان ہے کسی کو ضرورت ہو تو مجھ سے فرما دیجیے۔ آپ میرا مطلب سمجھ گئے ہوں گے۔ دام واجبی ہوں گے‘‘

***

’’ لیجیے جناب، ہماری خدمات کا صلہ مل گیا۔‘‘

’’کیا۔۔۔ ویسے مبارک ہو۔‘‘

’’سو سو مبارک۔۔۔ کمپنی نے نوکری سے جواب دیا۔‘‘

’’ہائیں۔۔۔ یہ کب کی بات ہے؟‘‘

’’ایک مہینہ ہوگیا ہے۔‘‘

’’لاحول ولا۔۔۔ مجھے معلوم ہی نہیں تھا۔۔۔‘‘

’’دو سو ملازموں کی چھانٹی ہوئی تھی نا۔۔۔‘‘

’’بہت افسوس کی بات ہے، کوئی احتجاج وغیرہ ہوا تھا؟ ‘‘

’’سیکڑوں ہڑتالیں ہوئیں، جلوس نکلے کئی مرتبہ لوگوں نے بھوک ہڑتال کی، وعدے ہوئے مگر نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔‘‘

’’تعجب ہے کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔‘‘

’’اللہ رحم کرے۔‘‘

’’اللہ رحم نہیں کرے گا۔ وہ دن لد گئے جب وہ مائل بہ کرم ہوا کرتا تھا۔ اتنے آدمی ہیں وہ کس کس کی حاجت روائی کرے۔ میرا تو خیال ہے اوپر آسمانوں پر بھی راشننگ سسٹم ہوگیا ہے۔‘‘

***

’’میں اس بد ذات سے کیا کہوں صاف مجھے دغا دے گیا۔۔۔‘‘

’’کیسے۔۔۔؟‘‘

’’حرام زادے نے وعدہ کیااور دونوں گاڑیاں ٹھکانے لگا دیں۔‘‘

’’اس کی وجہ؟‘‘

’’میں نے اس کا ایک کام کیا تھا اس کے عوض میں اس نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ وہ مجھے ایک بیوک کار جو اس کے پاس آنے والی تھی، آدھی قیمت پر دے دے گا۔‘‘

’’اور جو تم نے اس کا کام کیا تھا وہ لاکھوں کا تھا۔‘‘

’’اسی لیے تو کہتا ہوں بلڈی سوائن نے میرے ساتھ دھوکا کیا لیکن میں اس سے بدلہ لوں گا۔ خود بیوک میرے گھر پہنچا کے جائے گا۔‘‘

***

’’باورچی کو بلاؤ۔۔۔ جلدی بلاؤ۔۔۔ ہم اس سے بات کرنا مانگتا ہے۔‘‘

’’حضور حاضر ہوں۔‘‘

’’یہ تم نے آج کیسے واہیات کھانے پکائے ہیں؟‘‘

’’حضور! ‘‘

’’حضور کے بچے! اس پلیٹ سے بیگم صاحب نے ایک ہی نوالہ اٹھایا تھا کہ انھیں متلی آگئی۔‘‘

’’حضور ممکن ہے کوئی گڑ بڑ ہوگئی ہو۔ معافی چاہتا ہوں۔‘‘

’’معافی کے بچے۔۔۔ اٹھاؤ سالن باہر پھینک آؤ۔۔۔‘‘

’’ہم نوکر کھالیں گے سرکار۔‘‘

’’نہیں باہر ڈسٹ بن میں ڈال دو۔۔۔ اور تم سزا کے طور پر بھوکے رہو۔‘‘

’’اٹھیے بیگم، ہم کسی ہوٹل میں چلتے ہیں۔‘‘

***

’’اماں۔۔۔ اب گزارا کیسے ہوگا یہاں لتے بدن پر جھولنے کا زمانہ آگیا ہے۔‘‘

’’تو ٹھیک کہتی ہے بیٹا۔‘‘

’’سارا بازار ہی مندا ہے۔‘‘

’’کیوں ۔۔۔؟‘‘

’’لوگوں کے پاس روپیہ جو نہیں۔‘‘

’’لیکن جو سڑکوں پر اتنی شاندار موٹریں چلتی ہیں۔۔۔ یہ جو عورتیں تن پر زرق برق لباس پہنے ہوتی ہیں یہ کہاں سے آتا ہے اماں۔‘‘

’’ان لوگوں کے پاس ہے۔‘‘

’’تو پھر بازار کیوں مندا ہے؟‘‘

’’اب ان لوگوں نے اپنے آپس ہی میں ہمارا دھندا شروع کر دیا ہے۔‘‘

’’ڈارلنگ۔۔۔‘‘

’’جی!‘‘

’’ساری دکانیں چھان ماریں مگر تمہارے سائز کی میڈن فورم بریز ریز نہ مل سکی۔‘‘

’’اوہ ! ہاؤ سیڈ ۔۔۔ میرا سائز ہی کیا واہیات سا ہے۔‘‘

’’دعوت تو جناب ایسی ہوگی کہ یہاں کی تاریخ میں یادگار رہے گی۔ لیکن ایک افسوس ہے کہ فرانس سے جو میں نے شمپیئن منگوائی تھی، وقت پر نہ پہنچ سکے گی۔‘‘

’’اجی سنیے تو۔۔۔‘‘

’’اوہ آپ۔۔۔ مجھے بڑا ضروری کام ہے۔ معاف فرمائیے۔‘‘

’’معافیاں تم لاکھ مرتبہ مانگ چکے ہو۔ وہ میرا سو روپے کا قرض ادا کرو جو تم نے آج سے قریب قریب ایک سال ہوا، لیا تھا۔‘‘

’’میں پھر معافی چاہتا ہوں، میری بیوی بیمار ہے ،دوا لینے جارہا ہوں۔‘‘

’’میں ان گھسوں میں آنے والا نہیں، خدا کی قسم اگر آج میرا قرض ادا نہ ہوا تو سر پھوڑ دوں گا تمہارا۔‘‘

’’ آپ کیوں اتنی زحمت اٹھائیں، میں خود ہی اس دیوار کے ساتھ ٹکر مار کے اپنا سر پھوڑے لیتا ہوں۔ یہ لیجیے۔‘‘

’’یہ چرس کی لت تمھیں کہاں سے پڑی؟‘‘

’’کیا بتاؤں یار ،اب تو اس کے بغیر رہا ہی نہیں جاتا۔‘‘

’’میں نے تم سے پوچھا تھا کہ لت کہاں سے پڑی، تم نے کچھ اور ہی ہانکنا شروع کر دیا ہے۔‘‘

’’بھائی یہ لت مجھے جیل میں لگی۔‘‘

’’جیل میں۔۔۔ وہاں تو ایک مکھی بھی اندر نہیں جاسکتی۔‘‘

’’بھائی میرے ،وہاں مگر مچھ بھی جاسکتے ہیں، ہاتھی بھی جاسکتے ہیں۔ اگر تمہارے پاس دولت ہے تو آپ وہاں ایک دو ہاتھی بھی ساتھ رکھ سکتے ہیں۔‘‘

’’پہیلیاں نہ بھجواؤ۔ بتاؤ یہ چرس وہاں کیسے پہنچ سکتی ہے؟‘‘

’’ویسے ہی جیسے ہم وہاں پہنچ سکتے ہیں میرے عزیز ،جیل خانہ صرف ان لوگوں کے لیے جیل خانہ ہے جو صاحبِ استطاعت نہیں، جو دولت مند مجرم ہیں اُن کو وہاں ہر قسم کی مراعات مل سکتی ہیں اور ملتی ہیں۔‘‘

’’اگر تم چاہو تو تمھیں وہاں شراب مل سکتی ہے، گانجہ مل سکتا ہے، افیون دستیاب ہو سکتی ہے۔ اگر تم بڑے رئیس ہو تو اپنی بیوی کو بھی وہاں بلا سکتے ہوجو رات بھر تمہاری مٹھی چاپی کرتی رہے گی۔‘‘

’’جیل خانوں میں ایک’’ خاکی ‘‘مارکیٹ ہوتی ہے جو بلیک مارکیٹ سے زیادہ ایمان دار ہے۔‘‘

’’کرنل صاحب! آپ کی عمر کتنی ہوگی؟‘‘

’’میرا خیال ہے پینسٹھ کے قریب ہوگی۔۔۔ آپ کی؟‘‘

’’آپ جھوٹ بولتے ہیں، ماشاء اللہ ابھی جوان ہیں۔۔۔ میری عمر۔۔۔ میری عمر یہی پچیس چھبیس برس کے قریب ہوگی۔‘‘

’’تو ہم دونوں سچ بول رہے ہیں۔‘‘

’’مجھے لپ اسٹک سے نفرت ہے ،معلوم نہیں عورتیں اسے کیوں استعمال کرتی ہیں اس سے ہونٹوں کا ستیاناس ہو جاتا ہے۔‘‘

’’مجھے خود اس سے نفرت ہے۔‘‘

’’لیکن تمہارے ہونٹوں پر تو یہ واہیات چیز موجود ہے، خون کی طرح سرخ ہو رہے ہیں۔‘‘

’’یہ سرخی میرے اپنے ہونٹوں کی ہے۔ یعنی مصنوعی نہیں۔‘‘

’’تو آؤ ایک بوسہ لے لوں۔‘‘

’’بڑے شوق سے۔‘‘

’’پرے ہٹیے اب ،مجھے نہیں معلوم تھا کہ مرد بھی لپ اسٹک استعمال کرتے ہیں۔‘‘

’’وہ کیسے؟‘‘

’’ذرا آئینے میں اپنے ہونٹ ملاحظہ فرمائیے۔‘‘

’’صاحب! آپ سے کوئی ملنے آیا ہے۔‘‘

’’ کہہ دو صاحب گھر میں نہیں ہیں۔‘‘

’’بہت اچھا جناب۔‘‘

’’چلا گیا۔۔۔؟‘‘

’’جی نہیں، چلی گئی۔۔۔‘‘

’’کیا مطلب؟‘‘

’’جی وہ ایک ایکٹریس تھی جس کا نام۔۔۔‘‘

’’بھاگو بھاگو جلدی، اس کو بلا کے لاؤ اور کہو تم نے جھوٹ بولا تھا کہ میں گھر پر نہیں ہوں۔‘‘

’’آپ آج کل کہاں گھنٹوں غائب رہتے ہیں؟‘‘

’’بیگم ،ایک یتیم بچہ ہے اس کو دیکھنے کبھی کبھی چلا جاتا ہوں۔‘‘

’’اُس یتیم بچے سے آپ کو اتنی دلچسپی کیوں ہے؟‘‘

’’یتیم جو ہوا۔۔۔‘‘

’’آپ کی جیب میں اس کا فوٹو بھی موجود رہتا ہے۔‘‘

’’اس لیے ۔۔۔ اس لیے۔۔۔‘‘

’’کہ وہ آپ کا یتیم بچہ ہے۔‘‘

’’نون سنس۔۔۔‘‘

’’آپ کی قمیص پر سرخ دھبہ کیسے لگا؟‘‘

’’میری قمیص پر۔۔۔ کہاں ہے؟‘‘

’’داہنے ہاتھ، گریبان کے قریب۔۔۔‘‘

’’اوہ۔۔۔ میں جب دفتر میں کسی ضروری مسئلے پر غور کر رہا ہوتا ہو ں ،تو مجھے کسی بات کا ہوش نہیں رہتا۔ یہ لال پنسل کا نشان ہے جس سے میں نے کھجلا لیا ہو گا۔‘‘

’’جی ہاں، لیکن اس میں سے تو میکس فیکٹر کی خوشبو آرہی ہے۔‘‘

’’تم آج کل کس کی بیوی ہو؟‘‘

’’کل تو مسٹر۔۔۔ کی تھی آج چھٹی پر ہوں۔‘‘

’’آپ میدان جنگ میں جارہے ہیں، خدا آپ کا حافظ و ناصر ہو لیکن مجھے کوئی نشانی دیتے جائیے۔‘‘

’’میری نشانی تو تم خود ہو۔‘‘

’’نہیں کوئی ایسی چیز دیتے جائیے جس کو دیکھ کر اپنا دل بہلاتی رہوں۔‘‘

’’میں وہاں سے بھیج دوں گا۔‘‘

’’کیا چیز۔۔۔؟‘‘

’’وہ زخم جو مجھے لڑنے کے دوران آئیں گے۔‘‘

’’آپ کی بیگم کیسی ہیں؟‘‘

’’یہ تو آپ کو معلوم ہوگا۔ اپنی بیگم کے بارے میں مجھ سے دریافت فرما سکتے ہیں؟‘‘

’’وہ کیسی ہیں؟‘‘

’’پہلے سے بہتر اور خوش ہیں۔ ان کی طبیعت بہت پسند آئی۔‘‘

’’یار تم اتنی عورتوں سے یارانہ کیسے گانٹھ لیتے ہو؟‘‘

’’یارانہ کہاں گانٹھتا ہوں ،باقاعدہ شادی کرتا ہوں۔‘‘

’’شادی کرتے ہو؟‘‘

’’ہاں بھائی میں حرام کاری کا قائل نہیں، شادی کرتا ہوں اور جب اکتا جاتا ہوں تو حقِ مہر ادا کر کے اس سے چھٹکارا حاصل کر لیتا ہوں۔‘‘

’’اسلام زندہ باد!‘‘


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.