Jump to content

چند تصویر بتاں چند حسینوں کے خطوط

From Wikisource
چند تصویر بتاں چند حسینوں کے خطوط (1954)
by سعادت حسن منٹو
319908چند تصویر بتاں چند حسینوں کے خطوط1954سعادت حسن منٹو

بت نمبر ایکبڑا طنازبت ہے۔ کبھی اس کلب کی زینت رہتا ہے، کبھی اس کلب کی۔ اسے کلبوں کا بت کہا جائے تو شاید زیادہ مناسب و موزوں ہو۔ پورٹ وائن نہیں پیتا۔ وسکی پیتا ہے۔ ساڑھی نہیں پہنتا غرارہ پہنتا ہے۔ سنا ہے اس کے پاس ایک ہزار غرارے ہیں۔ اس بت کے سیکڑوں پجاری ہیں، زیادہ تربوڑھے جن میں ریٹائرڈ کرنل اور میجر زیادہ ہیں۔ ا ن کے منہ میں دانت ہوتے ہیں نہ پیٹ میں آنت۔ اس بت کا سوسائٹی میں بڑا نام ہے، لیکن بعض حاسد اس کے متعلق طرح طرح کے فضیحتی منسوب کرتے رہتے ہیں۔ حلیہاس بت کا یہ ہے کہ ناک کلو پطرہ وادی نیل کی ملکہ کی ناک سے تین انچ بڑی ہے۔ قد ساڑھے پانچ فٹ ہے، بال شب دیجور کی طرح سیاہ ہیں۔ چہرہ بیضوی ہے جو ہر وقت (رات کو بھی) میکس فیکٹر کے میک اپ میں چھپا رہتا ہے۔ اس لئے اس کے صحیح خدوخال صحیح طور پر ابھی تک معلوم نہیں ہو سکے اور نہ کبھی ہوں گے کیونکہ سنا ہے کہ وہ عنقریب امریکہ جا کر اپنے چہرے اور بدن پر پلاسٹک سرجری کرانے والا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ واپسی پر اس کی ناک اور قد دونوں چھوٹے ہو جائیں۔ اس صورت میں اسے اپنے ایک ہزار غراروں کا سائز چھوٹا کرانا پڑے گا۔ دانت سارے مصنوعی ہیں جن کی آب موتیوں کو بھی ماند کرتی ہے لیکن کلبوں کے باہر یہ افواہ اکثر گشت لگاتی رہتی ہے کہ اس کے اپنے دودھ کے دانت نکل رہے ہیں۔ بت نمبر دویہ کمسن بت بلا کا پھرتیلا، غضب کا چنچل ہے، ابھی میٹھا برس ہی لگا ہے لیکن وہ تین لمبی لمبی جستوں میں تلخ ترین برس تک پہنچ گیا ہے۔ اسکول میں پڑھتا تھا کہ اس کی وجہ سے دو موٹروں میں ٹکر ہوئی، تین گدھے زخمی ہوئے، ایک ٹانگہ پاش پاش ہو گیا۔ ایک لڑکے نے دوسرے لڑکے کے چھرا گھونپا۔ اس گھائل لڑکے نے وہی چھرا تیسرے لڑکے کے سینے میں پیوست کر دیا، تینوں وہیں ڈھیر ہو گئے۔ اور یہ بت کمسن ان کی بیوقوفی پر پاس کھڑا ہنستا رہا۔ اسکول سے نکلا تو کالج پہنچتے ہی چند مہینوں میں اس کے جسم کے تمام خدوخال نمایاں ہو گئے، اس قدر نمایاں کہ بعض دیکھنے والوں کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں جو تادم تحریر کھلی ہیں اور مندنے میں نہیں آتیں۔ پہلے مہینے میں کالج کے صرف ایک لڑکے نے اس کو دس ہزار خط لکھے۔ اس کے بعد کالج کے ہر لڑکے نے اس کو خط لکھنے شروع کر دیے، جن میں سے اس بت نے ایک بھی نہیں پڑھا۔ دس لڑکوں نے اس کو اپنے خون سے بارہ بارہ خط لکھے، کالج کے پرنسپل کو معلوم ہوا تو اس نے دس لڑکوں کو ہسپتال بھیج دیا۔ جہاں بلڈ بینک کے لئے ان میں سے ہر ایک کی رگوں سے چھ چھ اونس خون لیا گیا۔ اس بت نابالغ نے دو لڑکوں کو دق میں مبتلا کر دیا اور بڑے افسوس کا اظہار کیا۔ چار لڑکے پاگل ہو گئے۔ اس پر اس بت بے خبر نے شدید افسوس کا اظہار کیا۔ جب ایک لڑکے نے خودکشی کر لی تو اس نے چار آنسو بہائے اور اپنے نینوں کے دوپٹے میں خشک کئے۔ اب بت کمسن نے کچھ ہوش سنبھالا اور کالج کو خیر باد کہہ دیا۔۔۔ اس کی باقاعد شادی کر دی گئی۔ مگر چھ مہینے بعد طلاق ہو گئی، عدت کے دن پورے بھی نہ ہوئے تھے کہ دوسری شادی کر لی۔ حلیہچھوٹا قد، سانولا رنگ، گہرے بھورے بال، نقش تیکھے، گفتگو کا انداز شوخ و شنگ، دوپٹہ اور ساڑھی کا پلو ہمیشہ ڈھلکا رہتا ہے۔ تیسرا بتیہ بڑا سنگین بت ہے، ٹھوس پتھر کا بنا ہے۔۔۔ بڑے بڑے بت شکنوں نے اس کو گرانے کی کوشش کی مگر یہ اپنی جگہ سے ایک انچ نہ ہلا۔ بڑے بڑے وزنی گرزبنائے گئے۔ ایٹم بم تیار کئے گئے مگر یہ اسی طرح اپنے پاؤں پر قائم رہا۔ ملک کے ایک نامی گرامی بت شکن کو اپنے فن پر بڑا ناز تھا۔ اس نے چار برس متواتر کوشش کی۔ آخرکار اس بت کے ساتھ اپنا سر پھوڑ کر مر گیا۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ حلیہبہت معمولی شکل و صورت، ناک چپٹی، ماتھا تنگ، بال خشک اور کھردرے، جسم کے خدوخال بے کشش، لیکن آواز میں جادوچند حسینوں کے خطوط

پہلا خط

بھائی جان! سلام۔ میں کئی دن سے پریشان تھی۔ طرح طرح کے خیال ستاتے تھے، سوچتی تھی ان کا خط کیوں نہ آیا۔۔۔ ذرا سی آہٹ ہوتی۔۔۔ ذرا سا کھٹکا ہوتا۔۔۔ تو بھاگتی لیٹر بکس کی طرف۔۔۔ پروائے ناکامی واپس لوٹتی۔ دیکھئے، میں ہاتھ جوڑتی ہوں، اتنی دیر نہ لگایا کیجئے خط لکھنے میں۔۔۔ آپ نہیں جانتے میری طبیعت کتنی نازک ہے۔۔۔ مجھے جس سے انس پیدا ہو جائے۔۔۔ محبت بھی کہہ لیجئے۔۔۔ اس کی خیر خیریت کے لئے بہت بے تاب رہتی ہوں۔۔۔ آپ سے تو مجھے خاص لگاؤ ہے۔ بہرحال آپ کا خط آیا۔ خوشیوں کا چاند دکھائی دیا۔ یہ معلوم کر کے خوشی ہوئی کہ آپ خداوند کریم کے فضل سے بخیروعافیت ہیں۔ لیکن یہاں میرا حال ناگفتہ بہ ہے۔۔۔ میرے وہ تو اپنا علاج کرانے کے لئے اب دلی چلے گئے ہیں۔ جانے کب تک رہیں۔ آپ تو جانتے ہیں کہ دائم المریض ہیں۔۔۔ میری جان بڑے عذاب میں پھنسی ہوئی ہے۔۔۔ لیکن میں آپ کو ان باتوں سے کیوں رنجیدہ کروں۔ کیا آپ کبھی ادھر نہیں آ سکتے۔۔۔ ویسے تو پردہ کرتی ہوں، لیکن پھر بھی کسی نہ کسی طرح دل بہل جائے گا میرا۔ میں آج کل کچھ بیمار رہنے لگی ہوں۔۔۔ کیا آپ کوئی علاج تجویز کر سکتے ہیں؟ اس خط کے جواب میں دیر نہ لگایئے گا۔ ورنہ دل کے دورے پڑنے شروع ہو جائیں گے۔ آپ کی۔۔۔

دوسرا خط

لیفٹنٹ صاحب! تم اتنے بے رحم کیوں بنتے جا رہے ہو۔۔۔ اتنی مصروفیت بھی کیا کہ ادھر کا رخ ہی نہ کرو۔ میں تمہارے جذبات بخوبی سمجھتی ہوں، لیکن میری مجبوریاں بھی تم پر اچھی طرح واضح ہیں۔ اب کے ہم پھر مری جا رہے ہیں۔ تم اور کچھ نہیں تو چھ سات روز کی چھٹیاں لے کر وہاں ضرور آؤ۔ بڑے ہنگامے رہیں گے۔ میری بھتیجیاں بھی وہاں ہوں گی۔ اسی برس تعلیم سے فارغ ہوئی ہیں۔۔۔ تم ان سے مل کر یقیناً خوش ہو گے اور تم سے مل کر مجھے۔۔۔ کیا آؤ گے۔۔۔؟ نہیں تم ضرور آؤ گے۔ میں نے تمہارے لئے ایک نیا تحفہ بنوا کے رکھا ہے۔ آؤ اور لے لو۔ تمہاری۔۔۔

تیسرا خط

مسٹر! تم کیوں نہیں سمجھتے کہ تمہاری خط و کتابت مجھے سخت ناپسند ہے۔ تمہاری یہ حرکت صرف ناشائستہ ہی نہیں احمقانہ بھی ہے۔۔۔ تم نے مجھے آخر کیا سمجھ رکھا ہے۔۔۔ فلرٹ؟ تم مجھے اب آئندہ کوئی خط نہ لکھا کرو، کہ مجبوراً مجھے جواب دینا پڑتا ہے۔۔۔ اب آخری بار سن لو کہ مجھے تمہاری شاعری اچھی لگتی ہے، نہ تمہاری مصوری۔ معلوم نہیں کیوں لوگ تمہیں بہت بڑا مصور مانتے ہیں۔ مجھے یہ بھی حیرت ہے، میرے نام سے تمہاری بنائی ہوئی پینٹنگ کیوں مقابلے میں اول نمبر پر آئی۔ بہرحال آخری بار سن لو کہ یہ میرا آخری خط ہے۔۔۔ میں ایک شریف لڑکی ہوں۔ اس نوعیت کی خط و کتابت سے مجھے نفرت ہے۔ اے بی سی

چوتھا خط

پیارے ساتھی! کل اور پرسوں میں بہت مشغول رہی۔ میری بڑی بہن کی شادی تھی۔ میں تمہیں کیا بتاؤں کتنی رونق تھی اور کن لفظوں میں بیان کروں کہ میری بہن دلہن کے لباس میں کتنی سج رہی تھی۔ خدا کی قسم چندے آفتاب چندے ماہتاب تھی۔ برات میں وہ دھوم دھڑکا ہوا کہ اللہ کی پناہ۔ وہ شور وغل تھا کہ کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی لیکن پھر بھی یہ سب کچھ بہت دلچسپ تھا۔ اپنے اندر بے پناہ خاموشیاں لئے۔ ایسی خاموشیاں جو۔۔۔ ڈھولک پر ہم لڑکیوں نے تمام فلموں کے گیت گا دیے۔ میں تمہیں شاید پہلے بھی لکھ چکی ہوں کہ میری آواز سریلی ہے۔ میں اپنی ہم جولیوں سے بالکل الگ تھلگ معلوم ہوتی تھی۔ دولہا بھائی بہت خوبصورت ہیں۔۔۔ میں نے جب ان کی تعریف کی تو وہ مسکرا کر میرے چہرے کی طرف دیکھنے لگے۔۔۔ میں شرما گئی۔ میری تمہاری خط و کتابت شروع ہوئے قریب قریب ایک برس ہو چکا ہے۔۔۔ یہ قلمی دوستی بھی عجیب ہوتی ہے۔۔۔ کچھ لکھتے لکھتے رک گئی ہوں۔ تمہاری عمر تمہارے کہنے کے مطابق گیارہ برس کی ہے اور میری میرے کہنے کے مطابق دس برس کی۔ خدا ہم دونوں کو سمجھے۔۔۔ لیکن میں کہنا کیا چاہتی ہوں؟ تم جھوٹے ہو۔۔۔ پر لے درجے کے۔۔۔ مجھے تمہارے متعلق سب کچھ معلوم ہو چکا ہے۔۔۔ تم لا کالج میں پڑھتے۔۔۔ اب کرو انکار؟ اور چشمہ لگاتے ہو۔ تمہاری عمر ماشاء اللہ چوبیس برس کی ہے۔۔۔ آخر تم نے یہ ڈھونگ کیوں رچایا۔ کیا محض بچہ بن کر کسی چھوٹی سی بچی سے باتیں کرنے کے لئے؟ لیکن یہ باتیں کس منہ سے کہہ رہی ہوں۔۔۔ مجھے معلوم ہو چکا ہے کہ تم بھی میرے متعلق سب کچھ جان چکے ہو۔۔۔ مجھے تم سے۔۔۔ نہیں میں یہ نہیں کہہ سکتی، لیکن مجھے غصہ ضرور ہے کہ تم نے مجھے اتنی دیر غافل رکھا اور خود سب کچھ جانتے ہوئے مزہ لیتے رہے۔۔۔ ہائے جب میں سوچتی ہوں کہ میرے لکھے ہوئے خط تم کس طرح مسکرا مسکرا کر پڑھتے ہو گے تو ایمان سے میں جل بھن جاتی ہوں۔ خدا ہی تمہیں سمجھے۔۔۔ اور تم کیسے بن کے لکھتے تھے، جیسے سچ مچ نویں جماعت کے طالب علم ہو۔۔۔ میں نے تمہارے سارے خط سنبھال کر رکھے ہوئے ہیں، لیکن تمہیں میری قسم۔۔۔ میرے تمام خط آج ہی جلا دو۔۔۔ اگر تم نے نہ جلائے تو میں کبھی تم سے نہیں بولوں گی۔ اور کیا لکھوں۔۔۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔۔۔ اچھا، تم اپنی تصویر بھیجو۔۔۔ لیکن دوسرے پتے سے جو کہ میں نے خط کے کونے میں لکھ دیا ہے، یہ یاد رہے کہ میں اپنی تصویر کبھی نہیں بھیجوں گی۔ میرا خیال ہے کہ ہمیں خط و کتابت اسی طرح جاری رکھنی چاہیئے۔۔۔ یعنی اسی بچپن کے انداز میں۔۔۔ تمہارا کیا خیال ہے۔۔۔ اب اس میں زیادہ مزا آئے گا۔۔۔ تمہارا کیا خیال ہے؟ یہ مت خیال کرنا کہ میں تم سے محبت کرتی ہوں۔ تمہاری سہیلی


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.