Jump to content

چرا نہ آنکھ کو ساقی کہ بادہ نوش ہوں میں

From Wikisource
چرا نہ آنکھ کو ساقی کہ بادہ نوش ہوں میں
by پنڈت جگموہن ناتھ رینا شوق
318129چرا نہ آنکھ کو ساقی کہ بادہ نوش ہوں میںپنڈت جگموہن ناتھ رینا شوق

چرا نہ آنکھ کو ساقی کہ بادہ نوش ہوں میں
ابھی تو فیصلہ ہوتا ہے ایک ساغر پر

مریض عشق کی حالت کبھی نہ سنبھلے گی
مجھے تو چھوڑ دے اے چارہ گر مقدر پر

ہمارے نالے بھی تھک تھک کے اب تو بیٹھ رہے
گئے وہ دن کہ اٹھاتے تھے آسماں سر پر

ہمارے مے کدہ کو چھوڑ کر نہ جا زاہد
ملے گا قطرہ نہ کمبخت حوض کوثر پر

گلہ نہ ہم نے کیا شوقؔ اس ستم گر سے
بلائیں سب وہ اٹھائیں جو آ پڑیں سر پر


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.