پہلے صف عشاق میں میرا ہی لہو چاٹ
Appearance
پہلے صف عشاق میں میرا ہی لہو چاٹ
شمشیر نگہ تیری نے کیا کیا نہ کیا کاٹ
گلشن میں ہنسی دیکھ کے اس گل کی یکایک
حسرت سے گئے غنچوں کے یک لخت جگر پھاٹ
اتنا بھی دیا صبر نہ اس نفس دنی کو
کتے کی طرح بیٹھتا قسمت کا دیا چاٹ
دھلوائیے کیا جامۂ عصیاں کو بساؤ
چل کوچ میں دریا کے کنارے ہیں کھڑے گھاٹ
ہو غلۂ خلقت سے نہ سودائے محبت
ہے عشق کی دکان سو بنئے کی نہیں ہاٹ
اک پشم نظر ان کی میں ہے شال دوشالہ
جو بیٹھے بچھا بوریا اور اوڑھ لیا ٹاٹ
ستر دو بہتر ہیں طریق ان سے علاحدہ
ہے عشق کی منزل کی جدی راہ جدی باٹ
عشقیہ کہے شعر و یا مدح و مناقب
عالم کا بنواڑا کہے شاعر نہیں ہے بھاٹ
تب رفع خلش ہوئے میاں دل سے محبؔ کے
کہتے ہیں سو تجھ سے کہے دل کھول کے دکھ باٹ
This work was published before January 1, 1930, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |