Jump to content

پھولوں کی سازش

From Wikisource
پھولوں کی سازش (1941)
by سعادت حسن منٹو
325205پھولوں کی سازش1941سعادت حسن منٹو

باغ میں جتنے پھول تھے، سب کے سب باغی ہوگئے۔ گلاب کے سینے میں بغاوت کی آگ بھڑک رہی تھی۔ اس کی ایک ایک رگ آتشیں جذبہ کے تحت پھڑک رہی تھی۔ ایک روز اس نے اپنی کانٹوں بھری گردن اٹھائی اور غور و فکرکو بالائے طاق رکھ کر اپنے ساتھیوں سے مخاطب ہوا، ’’کسی کو کوئی حق حاصل نہیں کہ ہمارے پسینے سے اپنے عیش کا سامان مہیا کرے۔ ہماری زندگی کی بہاریں ہمارے لیے ہیں اور ہم اس میں کسی کی شرکت گوارا نہیں کرسکتے۔‘‘

گلاب کا منہ غصہ سے لال ہورہا تھا۔ اس کی پنکھڑیاں تھرتھرارہی تھیں۔

چنبلی کی جھاڑی میں تمام کلیاں یہ شور سن کر جاگ اٹھیں اور حیرت میں ایک دوسرے کا منہ تکنے لگیں۔ گلاب کی مردانہ آواز پھر بلند ہوئی۔

’’ہر ذی روح کو اپنے حقوق کی نگرانی کا حق حاصل ہے اور ہم پھول اس سے مستثنی نہیں ہیں۔ ہمارے قلوب زیادہ نازک اور حساس ہیں۔ گرم ہوا کا ایک جھونکا ہماری دنیائے رنگ و بو کو جلا کر خاکستر کرسکتا ہے اور شبنم کا ایک بے معنی قطرہ ہماری پیاس بجھا سکتا ہے۔ کیا ہم اس کانے مالی کے کھردرے ہاتھوں کو برداشت کرسکتے ہیں جس پر موسموں کے تغیر و تبدل کا کچھ اثر ہی نہیں ہوتا؟‘‘

موتیا کے پھول چلائے،’’ہرگز نہیں‘‘ لالہ کی آنکھوں میں خون اتر آیا اور کہنے لگا،’’اس کے ظلم سے میرا سینہ داغدار ہورہا ہے۔ میں پہلا پھول ہوں گا جو اس جلاد کے خلاف بغاوت کا سُرخ جھنڈا بلند کرے گا۔‘‘ یہ کہہ کروہ غصہ سے تھرتھر کانپنے لگا۔

چنبیلی کی کلیاں متحیر تھیں کہ یہ شور کیوں بلند ہورہا ہے۔ ایک کلی ناز کے ساتھ گلاب کے پودے کی طرف جھکی اور کہنے لگی،’’تم نے میری نیند خراب کردی ہے۔ آخر گلا پُھلا پُھلا کر کیوں چلاّ رہے ہو؟‘‘

گلِ خیروجو دور کھڑا گلاب کی قائدانہ تقریر پر غور کررہا تھا بولا،’’ قطرہ قطرہ مل کر دریا بنتا ہے۔ گو ہم ناتواں پھول ہیں لیکن اگر ہم سب مل جائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم اپنی جان کے دشمن کو پیس کر نہ رکھ دیں۔ ہماری پتیاں اگر خوشبو پیدا کرتی ہیں تو زہریلی گیس بھی تیار کر سکتی ہیں۔۔۔ بھائیو! گلاب کا ساتھ دو اور ا پنی فتح سمجھو۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے اخوت کے جذبے کے ساتھ ہر پھول کی طرف دیکھا۔

گلاب کچھ کہنے ہی والا تھا کہ چنبیلی کی کلی نے اپنے مرمریں جسم پر ایک تھرتھری پیدا کرتے ہوئے کہا،’’یہ سب بیکار باتیں ہیں۔۔۔ آؤ تم مجھے شعر سناؤ، میں آج تمہاری گود میں سونا چاہتی ہوں۔۔۔ تم شاعر ہو، میرے پیارے آؤ!ہم بہار کے ان خوشگوار دنوں کو ایسی فضول باتوں میں ضائع نہ کریں اور اس دنیا میں جائیں جہاں نیند ہی نیند ہے۔۔۔ میٹھی اور راحت بخش نیند!‘‘

گلاب کے سینے میں ایک ہیجان برپا ہوگیا۔ اس کی نبض کی دھڑکن تیز ہوگئی۔ اسے ایسا محسوس ہوا کہ وہ کسی اتھاہ گہرائی میں اتر رہا ہے۔اس نے کلی کی گفتگو کے اثر کو دور کرنے کی سعی کرتے ہوئے کہا،’’نہیں میں میدانِ جنگ میں اترنے کی قسم کھا چکا ہوں۔ اب یہ تمام رومان میرے لیے مہمل ہیں۔‘‘

کلی نے اپنے لچکیلے جسم کو بل دے کر خواب گوں لہجہ میں کہا،’’آہ!میرے پیارے گلاب ایسی باتیں نہ کرو، مجھے وحشت ہوتی ہے۔۔۔ چاندنی راتوں کا خیال کرو۔۔۔ جب میں اپنا لباس اتار کر اس نورانی فوارے کے نیچے نہاؤں گی تو تمہارے گالوں پر سرخی کا اُتار چڑھاؤ مجھے کتنا پیارا معلوم ہوگا اور تم میرے سیمیں لب کس طرح دیوانہ وار چومو گے۔۔۔ چھوڑوان فضول باتوں کو میں تمہارے کاندھے پر سر رکھ کرسونا چاہتی ہوں۔‘‘

اور چنبیلی کی نازک ادا کلی گلاب کے تھراّتے ہوئے گال کے ساتھ لگ کر سو گئی۔۔۔ گلاب مدہوش ہوگیا۔ چاروں طرف سے ایک عرصہ تک دوسرے پھولوں کی صدائیں بلند ہوتی رہیں مگر گلاب نہ جاگا۔۔۔ ساری رات وہ مخمور رہا۔

صبح کانا مالی آیا۔ اس نے گلاب کے پھول کی ٹہنی کے ساتھ چنبیلی کی کلی چمٹی ہوئی پائی۔ اس نے اپنا کُھر درا ہاتھ بڑھایا اور دونوں کو توڑ لیا۔


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.