پھر اعتبار عشق کے قابل نہیں رہا
Appearance
پھر اعتبار عشق کے قابل نہیں رہا
جو دل تری نظر سے گرا دل نہیں رہا
نشتر چبھوئے اب نہ پشیمانئ نگاہ
مجھ کو تو شکوۂ خلش دل نہیں رہا
موجیں ابھار کر مجھے جس سمت لے چلیں
حد نگاہ تک کہیں ساحل نہیں رہا
کیا کہئے اب مآل محبت کی سرگزشت
یاد اس کی رہ گئی ہے مگر دلؔ نہیں رہا
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |