پٹرے دھرے ہیں سر پر دریا کے پاٹ والے
Appearance
پٹرے دھرے ہیں سر پر دریا کے پاٹ والے
آتے ہیں کس ادا سے اس منہ پہ گھاٹ والے
چسکا پڑا ہے جب سے شیریں لبوں کا اس کے
کیسے لگے رہیں ہیں بوسے کی چاٹ والے
دریا پہ تو نہانے جایا نہ کر کہ ناداں
واں گھات میں ہیں تیری کئی دھوبی پاٹ والے
کوچے میں تیرے ظالم از بہر داد خواہی
یہ ظلم ہے تو لاکھوں آویں گے گھاٹ والے
بازار مصر میں وہ جن جن کو چھل گیا ہے
اک سوچ میں ہیں بیٹھے اب تک وہ ہاٹ والے
دیکھے نہ کوئی ان کو با دیدۂ حقارت
خزپوشوں پر گراں ہیں البتہ ٹاٹ والے
میں نے رقیب کو کل باتوں میں خوب کاٹا
چوکیں ہیں مصحفیؔ کب ہیں وہ جو کاٹ والے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |